گلزار امام کی گرفتاری: بلوچ قومی تحریک پر اثرات
دی بلوچستان پوسٹ اداریہ
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سکیورٹی فورسز نے ایک انٹیلی جنس آپریشن میں ہائی ویلیو ٹارگٹ گلزار امام عرف شمبے کو گرفتار کرلیا ہے، گلزار امام آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے بانی اور سپریم کمانڈر ہیں۔ پاکستانی فوج گلزار امام کے گرفتاری کو بڑی کامیابی کی طرح پیش کررہاہے، جبکہ اُن کی تنظیم ( بلوچ نیشنلسٹ آرمی ) کا دعویٰ ہے کہ گلزار امام ایک سال سے پاکستان فوج کے تحویل میں تھے اور انہیں 3 مئی 2022 کو ترکی سےگرفتار کیا گیا تھا۔
بلوچ نیشنلسٹ آرمی اپنے بیانات میں خدشہ ظاہر کر رہا ہے کہ ریاست پاکستان گلزار امام کو تشدد کا نشانہ بناکر بلوچ قومی تحریک کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرے گا اور تحریک کے خلاف پروپکنڈے کا آغاز کرے گا۔ پاکستان گلزار امام کی گرفتاری کو بلوچ تحریک کے لئے بڑے دھچکے سے تعبیر کررہا ہے اور تجزیہ کار بھی دو دہائی میں پہلی بار ہائی پروفائل گوریلا کمانڈر کی گرفتاری کو پاکستان کی کامیابی قرار دے کر کہہ رہے ہیں کہ اس کے بلوچ آزادی کی جدجہد پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان کے جو دفاعی تجزیہ کار گلزار امام کی گرفتاری کو بلوچ قومی تحریک کی کمزور ہونے سے تعبیر کررہے ہیں، وہ بلوچ قومی تحریک کے تاریخی تسلسل سے چشم پوشی کرکے انفرادی واقعات کو لے کر تحریک کے کمزوری یا خاتمے کی پیشن گوئی کررہے ہیں۔ یہ پیشنگوئیاں نئی نہیں ہیں بلکہ اکیسویں صدی میں بلوچ تحریک کی احیاء کے بعد تواتر سے کئے جارہے ہیں، جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ صرف تین سردار ہیں اور کچھ فراری کیمپ ہیں جنہیں جلد ختم کردیا جائے گا لیکن دو دہائی کے بعد بھی بلوچ قومی تحریک آزادی اپنے تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی میں پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک ؤ مسلم لیگ کے دور حکومت میں چوہدری نثار اور پاکستان فوج کے جنرل بھی وقتاً پہ وقتاً بلوچ قومی تحریک کو طاقت سے ذریعے کچلنے کی بات کرتے رہے ہیں لیکن بلوچ قومی تحریک کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور حالیہ سالوں میں بلوچ تحریک سے وابستہ مسلح تنظیمیں پاکستان میں چائینہ کے مفادات کو براہ راست نشانہ بنا رہے ہیں جو تحریک کے منظم اور مربوط ہونے کی نشانی سمجھی جاسکتی ہے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ گلزار امام کی گرفتاری سے بلوچ تحریک پر منفی اثرات پڑیں گے لیکن اُن کی گرفتاری سے بلوچ تحریک کمزور ہوگی یہ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ نواب اکبر خان بگٹی ، بالاچ خان مری، چئرمین غلام محمد اور اسلم بلوچ کو قتل کرنے کے بعد ریاستی اداروں و کچھ دانشوروں نے بلوچ تحریک کی ختم ہونے کی پیشنگوئیاں کی تھیں لیکن آج بھی بلوچ قومی آزادی کی تحریک منظم شکل میں جاری ہے۔
بلوچ قومی تحریک کا باریک بینی سے مشاہدہ کریں تو ہمیں معلوم پڑے گا کہ بلوچ تحریک ادارہ جاتی بنیاد پر منظم ہے اور جب تک بلوچ مسئلہ حل نہیں ہوتا، بلوچ تحریک جاری رہے گی اور رہنماؤں کی گرفتاری یا قتل کے اثرات ضرور ہوں گے لیکن تحریک کا تسلسل جاری رہے گا۔