کیچ کی تعلیمی پسماندگی کی ذمہ دار کون ؟
تحرير: سعید احمد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اگر میں کیچ کی تعلیمی پسماندگی کی بات کروں تو یقین مانیں میں اس بارے جتنی وضاحت کروں، کیچ کی تعلیمی پسماندگی کا %30 احاطہ نہیں کیا جا سکے گا، کیونکہ ضلع کیچ ایک وسیع و عریض علاقہ ہے اور کیچ کے تمام علاقے ہر لحاظ سے پسماندہ ہیں لیکن تعلیمی نظام کے لحاظ سے یہ زیادہ پسماندہ ہیں جن میں کیچ کے علاقے دشت، مند، تمپ، زامران، بلیدہ، اور پیدراک شامل ہیں حیرانگی کی بات یہ ہے ضلع کیچ کے انتظامیہ شہر تربت بھی شدید تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے اس سے زیاده ظلم اور کیا ہوسکتا ہے۔
تربت کے دو ڈگری کالجز شدید مسائل کا شکار ہیں، عطاشاد ڈگری کالج میں بسوں کی کمی اور گرلز ڈگری کالج تربت کی تمام بسیں بند ہونے سے دور دراز علاقوں کی طالبات کی پڑھائی شدید متاثر ہو رہی ہے اور حال ہی میں آبسر کے طالب علموں نے اساتذہ کی کمی کے خلاف احتجاج کیا اور کئی سکول ایسے ہیں جہاں اساتذہ کی کمی ہے اور وہاں کے سربراہان نام نہاد نمائندوں کے خاص بندے ہیں اور طلباء کو احتجاج اور بات کرنے نہیں دیتے ۔
کیچ کے نام نہاد نمائندوں کے اپنے دور حکومت میں پانچوں وزیر اور ایم این اے کے تعلیمی کارنامے کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اور ان کی حکومت نے کیچ سمیت پورے بلوچستان کی تعلیم کو تباہ کر دیا ہے۔
کیچ میں سب سے بڑا اور اہم تعلیمی مسئلہ تربت پبلک لائبریری ہے جو کہ گزشتہ تین سال سے بند پڑی ہے اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کیچ کی تمام سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، ان کی خاموشی ان کی بے بسی کو ظاہر کرتی ہے، آل پارٹیز کیچ کے نمائندے اپنے ذاتی مفادات کے لیے بڑے بڑے اقدامات کرتے ہیں لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کیچ پبلک لائبریری کی بندش سے ایک نسل تباہ ہو رہی ہے لیکن کسی کو پرواہ نہیں اور آج تک ایک احتجاج اور ایک مزاکرات انتظامیہ سے پبلک لائبریری کے حوالے سے نہیں کیا گیا جو ایک المیہ ہے۔
کیچ کے بیشتر سکول ابھی تک بند ہیں اور گوداموں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ کھلے ہیں تو وہ بھی اساتذہ کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ اس کی واضح مثال کیچ کے علاقے دشت، مند، تمپ اور پیدراک میں واضح طور پر دیکھائی دیتے ہیں۔
کئی سال قبل دشت بل نگور اور مند کے لیے ایک انٹر کالج کی منظوری دی گئی تھی اور اس کا فنڈ بھی جاری کیا گیا تھا، لیکن آج تک یہ دونوں کالجز زمین پر دکھائی نہیں دے رہے ہیں، صرف سرکاری فائلوں میں تیار ہیں سرکاری ریکارڈ میں طلبا تعلیم حاصل کررہے لیکن حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہے، اس متعلق بھی تمام ساسی جماعتیں، سول سوسائٹی، طلبا تنظیمیں خاموش ہیں۔
بلوچستان کی موجودہ حکومت کا ایک اور کارنامہ حال ہی میں محکمہ تعلیم میں 2020-21 میں تقریباً 4560 اساتذہ کی ڈگریاں جعلی ہونے کا انکشاف ہوا ہے ڈگریاں حاصل کرنے والے نوجوان غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور بڑی مشکل سے پڑھتے ہیں، والدین خود غربت میں رہتے ہیں لیکن اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے پیسے بھیجتے ہیں اور اس امید پر بیٹھے ہیں کہ ایک دن ہمارا بچہ ہمارا سہارا بنے گا، لیکن بدقسمتی سے نام نہاد وزراء ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیتے ہیں اور ان کی جگہ جعلی ڈگری والے اپنے لوگوں کو لیتے ہیں۔ 2018 میں ہونے والے الیکشن کے بعد باپ کی حکومت نے کیچ سمیت پورے بلوچستان کا تعلیمی نظام تباہ کر دیا ہے۔
یہ عمل ایک بار پھر دہرایا جا رہا ہے۔ ایک انوکھا واقعہ بلوچستان میں ہورہا ہے جہاں سکولوں کی خالی آسامیوں کو پر کرنے کی ذمہ داری ایک کرپٹ یونیورسٹی کو دی گئی، جو خود اپنے معاملات میں شفافیت کا مظاہرہ کر نہ پایا۔ اسی وقت اس یونیورسٹی کے وی سی کا تبادلہ ہونا اس جانب واضح اشاره ہے کہ 2021 کا واقعہ دوبارہ دہرایا جائے گا، جعلی ڈگری والے محکمہ تعلیم میں بھرتی ہوں گے اور اس طرح نام نہاد باپ حکومت کی آشیرباد سے محکمہ تعلیم تباہی کی طرف جا رہا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں