جامعہ کراچی کے احاطے میں ہونے والے خودکش دھماکے کو ایک سال گذرنے کے بعد بھی پاکستانی فورسز اور دیگر ایجنسیاں خودکش بمبار شاری کے شوہر سمیت حملے کے ماسٹر مائنڈ کا سراغ لگانے اور گرفتار کرنے میں ناکام ہیں۔ مذکورہ حملے میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے تین چینی ارکان سمیت کم از کم پانچ افراد ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
26 اپریل 2022 کو کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں واقع کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے داخلی دروازے پر خاتون خودکش بمبار نے چینی اساتذہ کو لے جانے والی وین کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے تین چینی ارکان سمیت کم از کم پانچ افراد ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوئے تھے اس حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔ تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے کہا کہ یہ کارروائی بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کی خاتون رکن شاری بلوچ نے سرانجام دی ہے۔
ڈان نیوز کے رپورٹ کے مطابق حملے کے ایک سال گذرنے کے بعد بھی آج تک، قانون نافذ کرنے والے ادارے شاری بلوچ کی شریک حیات ڈاکٹر ہیبتان بشیر کا پتہ لگانے کے لیے سرگرداں ہیں، جو اپنی بیوی کے خودکش حملے سے قبل اپنے دو بچوں سمیت روپوش ہو گئے تھے
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہے جبکہ ایک مبینہ سہولت کا زیر حراست ہے جبکہ دیگر اشتہار قرار دیئے گئے افراد ہیبتان بلوچ، بی ایل اے سربراہ بشیر زیب بلوچ، کمانڈر رحمان گل، خلیل واجہ، بی ایل اے ترجمان و دیگر کا سراغ نہیں لگایا جاسکا ہے۔
پولیس کی جانب سے اے ٹی سی میں اندراج کی گئی چارج شیٹ کے مطابق ایک مبینہ سہولت کار داد بخش کو 4 جولائی 2022 کو ہاکس بے روڈ پر مچلی چوک کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا۔ مذکورہ مبینہ سہولت کار نے ریکی کی اور دوسرے مشتبہ افراد کو معلومات فراہم کیں۔
رپورٹ میں بتایا کہ اس حملے کے بعد کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کو کچھ عرصے کے لیے بند کر دیا گیا لیکن بعد میں اس نے اپنی تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دیں۔
کراچی یونیورسٹی کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی اور چینی حکام نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تسلی بخش سیکیورٹی صورتحال تک چینی انسٹی ٹیوٹ میں جسمانی طور پر نہیں پڑھائیں گے۔ اس لیے اب چین میں تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلبہ ‘کے یو’ میں پڑھا رہے ہیں جبکہ چینی اساتذہ چین سے آن لائن لیکچر دیتے ہیں۔
مبینہ سہولت کار
پولیس کے مطابق کیس میں ایک ملزم داد بخش گرفتار ہے۔ انہوں نے داد بخش کو چار جولائی 2022 کو مچھلی چوک ہاکس بے سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ پولیس کے مطابق داد بخش نے اپنے شریک ملزم ناصر کے ساتھ چائنیز نیشنلز کو نشانہ بنانے کے انکشافات کیے ہیں۔
مذکورہ کیس میں پولیس کی جانب سے گرفتاری کا دعویٰ کئے جانے والے دادبخش کے لواحقین دادبخش پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہیں-
لواحقین کا کہنا ہے کہ شعیب بلوچ نال ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم ہیں جنہیں 29 اپریل 2022ء کو کراچی کے علاقہ گلستان جوہر بشیر ولیج سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا مگر 4 جولائی 2022ء کو سی ٹی ڈی نے ماری پور کراچی سے ان کی گرفتاری بنام داد بخش کے طور پر ظاہر کرکے ان پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات عائد کرکے عدالت سے 2ماہ کا ریمانڈ طلب کیا تھا۔
شعیب بلوچ کے خاندان کا تربت میں ایک پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ وہ کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لینا چارہے تھے۔ وہ ایک محنتی اور پڑھائی کے شوقین طالب علم ہیں انکی گرفتاری سے ان کی تعلیمی کیریئر ضائع ہونے کا خدشہ ہے، 2 ماہ کے ریمانڈ اور تشدد کے بعد یقیناً ان کی ذہنی حالت مفلوج ہوکر رہ جائے گی۔