کتاب علم سے بھرا ہوا خزانہ ہے
تحرير: لالا رحمت بنگلزئی
دی بلوچستان پوسٹ
ضرورت یہ ہیکہ نوجوان نسل کو کتاب کی علم سے نوازیں یہ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی جانچنے کے لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں تعلیمی نظام کیسا ہے اور کسی بھی تعلیمی نظام کو جانچنے کے لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں کتنی لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔ اور کتنے لوگ اس سے استفادہ ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ کہا جاتا ہے کہ پورے پاکستان میں جتنی کتابیں موجود ہیں وہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی لائبریری میں موجود ہیں۔ پاکستان میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی، صارفین کی کم قوت خرید، حصول معلومات کے لئے موبائل، انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال، اچھی کتابوں کا کم ہوتا ہوا رجحان، حکومتی عدم سرپرستی اور لائبریریوں کے لئے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ کتب بینی کے فروغ کے لئے حکومت پاکستان نے اپریل کو قومی یوم کتاب اور کاپی رائٹ ڈے کے موقع پر یومِ کتاب منایا جاتا ہے ۔اس حوالے مختلف ممالک میں مختلف پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں جن میں بْک پریڈ، مشاعرہ، ویڈیو ڈسپلے ، تراجم گول میز کانفرنس، تقریب رونمائی کتب اور نمائش کتب نمایاں ہوتے ہیں ھیں۔ کتاب کی ترویج و ترقی کے لئے ملک میں کتب خانوں کا جال پھیلا رہی ہے اس سلسلے میں بھی مختلف پارکوں میں لائبریریوں کے قیام کی تجویز ہے۔
بک ڈے پر ایک بک پریڈ کا اہتمام کیا جاتا ہے کتاب اور کتب خانوں کی افادیت اور اہمیت کو مہذب قوموں نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے اہل علم کسی ملک میں پائے جانے والے کتب خانوں کو اس ملک کی ثقافتی، تعلیمی اور صنعتی ترقی کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔ آج کل نئی نسل میں کتب بینی کا رجحان تھوڑا بہت پہلے سے زیادہ ہوتا جا رہا ہے نوجوانوں اور نئی نسل کو چاہیے کہ وہ ہمارے اسلاف کے کارناموں سے واقفیت کے لئے مختلف لوگوں کے لکھی ہوئی کتابیں اور تحریریں، اور دیگر مشاہیر کے خطبات و کلام پڑھیں اور انکے نظریات اور افکار کو عملی جامہ پہنائیں۔
کتب بینی سے انسان میں الفاظ کا ذخیرہ بھی بڑھ جاتا ہے اور وہ اس سے اپنے ما فی الضمیر کو جس طرح چاہے بیان کر سکتا ہے یہ ایک قدرتی تحفہ ہے کتب بینی کی عادت ہمیں ڈالنی ہو گی، تاکہ ایک بہتر اور سمجھ دار معاشرے کا وجود یقینی بنایا جا سکے۔ ہمیں چاہیے کہ بچوں کو لائبریری بھی لے جائیں۔ کہتے ہیں کہ لائبریری بچے کے دماغ کی بہترین میزبان ہوتی ہے۔ ڈھیر ساری کتابیں دیکھ کر بچہ خوش بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے مزاج اور پسند کے مطابق کتابوں کا انتخاب کر کے اپنی دماغی صلاحیتیں اجاگر کر سکتا ہے۔ کتاب بہت اچھی ہم نشین اور رفیق ہے۔ کتاب علم سے بھرا ہوا خزانہ اور دانش مندی سے بھرا ہوا پیمانہ ہے۔ کتابیں فطرت کی بخشی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے ، عقل و شعور کی صحیح طور پر راہنمائی کرنے اور انھیں پروان چڑھانے کا نہایت موثر ذریعہ ہیں۔ اس سے انسان معراج کمال پاتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے خود کتاب کی اہمیت کم کر دی ہے۔ ہم اپنے دوستوں اور بچوں کو ایک سے ایک قیمتی تحفہ دیتے ہیں لیکن کتاب نہیں دیتے۔ ہمیں چاہیے کہ تحفہ میں بچوں اور دوستوں کو کتابیں دیں،تاکہ معاشرے میں کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہو۔کتب بینی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے سب سے پہلے اخبار، رسالے یا پھر کتابیں خرید کر پڑھیں۔ ہر محلے میں ایک مختصر سی سہی لائبریری کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے، جہاں اردو انگریزی اور عربی ،بلوچی ، کی ابتدائی کتابیں میسر ہوں۔ پبلشروں کو چاہیے کہ اپنے بزرگوں کی بہادری، انصاف اور رواداری پر مشتمل کتابیں شائع کریں، تاکہ نوجوانوں اور بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا ہو۔ کتاب اور کتب خانوں کی افادیت اور اہمیت کو مہذب قوموں نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے۔ لائبریریوں کی ترقی، ترویج اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ملک میں اس کے لئے باقاعدہ قانون موجود نہ ہو۔ کتب بینی کے رجحان میں اضافہ کرنے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ پورے پاکستان میں لائبریریوں سے متعلق قانون سازی کرتے ہوئے تمام کارپوریشنز، میونسپل کمیٹیوں، ضلع کونسلوں اور یونین کونسلوں تک کو ہدایت کرے کہ وہ اپنی آمدنی کاکم از کم 3% لائبریریوں کی ترویج و ترقی پر صرف کریں۔ اور لائبریری میں کام کرنے والے سٹاف کے لئے سروس سٹرکچر و سروس رولز بنائے جائیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں