بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے جاری کردہ بیان میں کہا کہ محکمہ تعلیم بلوچستان کے حالیہ آسامیوں پر ایس بی کے خرد برد کرکے ہزاروں نوجوانوں کی حق تلفی کر رہا ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔
“تنظیم نے پہلے ہی سے خدشات کا اظہار کرکے ان اسامیوں پر شفافیت کا مطالبہ کیا تھا جس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا، محکمہ تعلیم نے ٹیسٹ ایسے ادارے کے حوالے کیے جن کے اپنے ہی داخلہ جات کا ٹیسٹ دوسرے ادارے لیتے ہیں۔ ایس بی کے یونیورسٹی حالیہ اسامیوں پر بھی خرد برد کرکے کچھ لوگوں کی ملی بھگت سے ہزاروں نوجْوانوں کی حق تلفی کرنے کا پلان بنا رہی ہے جس سے ہزاروں قابل ڈگری یافتہ نوجوانوں کے مستقبل کو اندھیرے کی جانب دھکیل رہے ہیں۔”
بیان میں مزید کہا گیا کہ ادارے کی سائیٹ پر امیدواران کی جو لسٹ آویزاں کی گئی ہے اس پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جن پر بی ایس او سمیت تمام نوجوانوں کو تحفظات ہیں۔ درخواست فارم کی اسکورٹنی کیلئے ایس بی کے نے زمہ دار و ٹیکنیکل افراد کے بجائے ڈیلی ویجز پر من پسند لوگوں کو بھرتی کیا گیا تاکہ خرد برد اور من پسند افراد کو آسامیوں پر بھرتی کرنے کی راہ ہموار ہوں۔ فارم اسکورٹنی کے پہلے مرحلے میں ہی امیدواروں کی حق تلفی کی گئی ہے جس کا واضح مثال پروفیشنل ڈگری والے امیدواروں کے نمبر شامل نہیں کیے گئے ہیں جبکہ انتظامیہ کی غفلت سے سینکڑوں درخواست فارم بغیر کسی وجہ کے رجیکٹ کئے جاچکے ہیں جبکہ پہلے ہی سے من پسند لوگوں کو نوازنے کیلئے ان کے پروفیشنل مارکس بڑھا دیے دئے گئے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا ہے کہ بلوچستان میں تعلیم جیسے پیشے کو کاروبار کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ ہر امیدوار سے بھاری چالان وصول کرکے اربوں روپے کمائے گئے جبکہ درجنوں معیاری و قابل اعتبار ٹیسٹنگ اداروں کے باجود سردار بہادر خان یونیورسٹی کو ٹیسٹ دینا انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اس ادارے میں بڑے پیمانے پر ہزاروں امیدواراں کی ٹیسٹ لینے کیلئے افرادی قوت اور ٹیکنیکل سسٹم بھی موجود نہیں ہے۔ بلوچستان کے تمام امیدواران کو نا صرف اس ادارے کی شفافیت پر شک ہے بلکہ لسٹ آویزاں ہوتے ہی بہت سے سوالات کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ خرد برد کا ایک اور واضح ثبوت یہ ہے کہ ایس بی کے ٹیسٹ میں امیدواروں کو کاربن کی بھی نہیں دیا جاتا تاکہ من پسند افراد کو نمبرز سے نوازنے اور قابل طلباء کے نمبرز کم کرنے میں کوئی مشکلات پیش نہ آئے۔
آخر میں ترجمان نے کہا ہے کہ محکمہ تعلیم ٹیسٹ کو معیاری بنانے کیلئے سردار بہادر خان یونیورسٹی کے بجائے ایک باعتماد ادارے کو ٹیسٹ کی ذمہ داری دے بصورت دیگر کسی بھی قسم کی ناانصافی کے خلاف احتجاج کا راستہ اپنا کر سخت لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔