متحد ہوکر ہم تمام مظلوموں کے لیے مضبوط و موثر تحریک پیدا کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر نسیم بلوچ

198

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے یونائیٹڈ نیشنز ہیومین رائٹس کونسل ( یو این ایچ سی آر) کے 52ویں اجلاس کے موقع پر پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک ضمنی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں سے دوچار ہے جو مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، تشدد اور ناروا سلوک، اور اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی پر پابندیاں انسانی حقوق کی سب سے بے رحمانہ خلاف ورزیاں ہیں۔ بلوچستان اور کے پی کے میں جبری گمشدگیاں معمول بن چکی ہے، سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور طلباء سمیت بہت سے افراد کو ریاستی سیکورٹی فورسز یا ان کے پراکسیوں کے ذریعے اغوا کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی افراد جبری لاپتہ ہیں، اور ان کے اہل خانہ انصاف کی تلاش میں ہیں۔پاکستانی حکومت نے آزادی اظہار اور اجتماع پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو ریاست کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں یا اپنی قوموں کی آزادی کی وکالت کرتے ہیں۔

انھوں نے محکوم خطوں میں انسانی حقوق کی حالیہ صورت حال کی منظر کشی کرتے ہوئے کہا انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں نے عوام میں خوف اور عدم تحفظ پیدا کیا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو ریاست کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔پاکستانی حکومت کو ان خلاف ورزیوں سے نمٹنے اور متاثرین اور ان کے خاندانوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔یہاں تک کہ نامور سیاستدان جیسے علی وزیر، پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن، جو پی ٹی ایم اور وزیرستان کے علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں، کو دوران حراست غیر قانونی حراست اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ۔اس سے ایک عام بلوچ، پشتون، سندھی، کشمیری، یا گلگت بلتستانی کی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

انھوں نے کہا میں اقوام متحدہ کی طرف سے اس اقدام کی اہمیت پر زور دینا چاہتا ہوں کہ وہ بلوچستان، کے پی کے اور دیگر مظلوم اقوام میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔صورتحال کے منصفانہ جائزہ کو یقینی بنانے کے لیے، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں کے تناظر اور رپورٹس کو شامل کریں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

چیئرمین ڈاکٹر نسیم کے مطابق عالمی برادری کی خاموشی نے پاکستان کو ظلم کرنے کے لیے چھوٹ دے رکھی ہے ، انھوں نے کہا عالمی برادری کو انسانی حقوق کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فعال انداز اپنانا چاہیے۔ اس معاملے پر عالمی برادری کی خاموشی نے پاکستانی حکومت کو اپنی جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی پالیسیوں کو چھوٹ کے ساتھ جاری رکھنے کا موقع دیا ہے۔

انھوں نے بین الاقوامی بردای کی حمایت کو پاکستانی مظالم کے خلاف موثر قرار دیتے ہوئے کہا مظلوم قوموں کی بہتری کے لیے کام کرنے والی پی ٹی ایم اور دیگر تنظیموں کو اپنی آواز بلند کرنے اور تبدیلی کو آگے بڑھانے کے لیے بین الاقوامی حمایت کی ضرورت ہے۔

انھوں نے اس موقع پر مظلوم اقوام کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پر زور دیتے ہوئے کہا پاکستان میں نہ صرف بلوچ اور پشتون بلکہ سندھیوں، کشمیریوں اور گلگتی بلتستانیوں کو بھی اسی طرح کے جبر کا سامنا ہے اور انہیں اپنی شناخت، ثقافت اور زبانوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ہماری سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کو دبا دیا گیا ہے، اور جو لوگ ان مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات کرتے ہیں انھیں اغوا، لاپتہ اور بالآخر قتل کر دیا جاتا ہے۔

’’ اس طرح کے جبر کی صورت حال میں ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم مشترکہ دشمن کے خلاف متحدہ محاذ کی اپنی تاریخی جڑوں پر قائم رہیں اور مل کر کام کریں۔‘‘

انھوں نے بلوچ اور پشتون تاریخی تعلقات کو بیرونی قابضین کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی بنیاد بنانے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا بلوچ اور پشتون ثقافتی، لسانی اور تاریخی رشتوں کی ایک بھرپور تاریخ رکھتے ہیں اور صدیوں سے ان کے قریبی اور باہمی تعلقات ہیں۔وہ انگریزوں جیسے حملہ آوروں اور استعمار کے خلاف جنگ اور امن کے وقت ساتھ کھڑے رہے ہیں اور جب بھی ضرورت ہوئی تو انھوں نے ایک دوسرے کے لیے اپنے دروازے کھولے۔سوویت افغان جنگ کے دوران افغانستان سے بہت سے مہاجرین نے بلوچستان میںپناہ لی اور اسی طرح بہت سے بلوچ مہاجرین نے افغان عوام کی حمایت حاصل کرتے ہوئے افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں تلاش کیں۔