ماہل بلوچ، مجھے افسوس نہیں
تحریر: سنگت کوہ دل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ماہل بلوچ بلوچستان کے لیے بلوچستان کے ہر اس شئے کے لیے محبت رکھنے والی ہے۔ جو بلوچستان کے سرزمیں پہ وجود رکھتی ہے۔ بلوچستان کے لیے اوربلوچستان کے آزادی کے لیے اگر وہ جدوجہد کر رہی تھی اگر اسکا عمل اور کردار بلوچستان کے وجود کو قائم رکھنے اور اسکے خوبصورتی کو بحال کرنے کے لیے تھا،اگر اسکا عمل بلوچستان کو نوآبادیتی نظام سےنجات دینے کے لیے تھااگر اسکا غور فکر بلوچستان کے ترقی اوراسکے قوم کے بقا کے لیے تھا۔ اگر اسکا خواب بلوچستان کے آزادی کے لیے تھا ۔تو مجھے اسکے اٹھائے جانے کا افسوس نہیں۔میں افسوس نہیں کر سکتا کیونکہ پھر تو وہ ان میں سے ہوگی جو اپنے سرزمیں اور اپنے لوگوں کے لیےہر مشکل سے گزر جانے کے لیے ہر وقت ہرلمحہ ہر محاز پر لڑنے اور مٹ جانے کو تیار رہتی ہیں ۔ وہ سیاسی اور عسکری میدانو ں کے کھلاڑی ہوتے ہیں ۔ وہ انقلابی ہوتے ہیں ۔ وہ وقت اور حالات سے سمجھوتہ نہیں کرتے۔ وہ ظلم کے خلاف ڈٹ جاتےہیں۔ اور ظالم کے جو ہاتھ ہیں جس جرم میں اسے جڑ سے مٹانے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ قوم کے محافظ ہوتے ہیں ۔ وہ باشعور ہوتے ہیں۔انکے سوچنے سمجھنے کا زاویہ الگ ہوتا ہے وہ الگ پہچان رکھتے ہیں۔وہ مرد مجاہد ہوتے ہیں وہ بلوچ ہوتے ہیں۔ ریاست انہی کو دستگیر کرتا ہے جس سے خوف رکھتا ہے۔ جس سے اسے اپنے وجود کو خطرہ ہوتا ہے۔
بانک اور شاری کے فکر کو ساتھ لینے والے یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان راہوں پر پھول نہیں بلکہ زہریلےکانٹے ہیں اور آرام نہیں بلکہ بےخوابی ہے۔ان راستوں پہ سکون کے ساتھ بے انتہا درد اور تکلیف بھی ہے ۔ان راستوں پہ خار دار تار ے ہیں۔ ان راستوں سے صرف وہی گزر سکتا ہے جو شعور میں مزین ہو۔ جو علم اور فکر کا دیا ساتھ لیے اندھیرے راتوں کا مسافر ہو۔جو عظیم نظریے کا پابند ہو۔ انکے دل میں محبت صرف مادروطن کی ہوتی ہے۔ وہ آنے والے وقت کے خطروں سے واقف ہوتے ہے ۔ وہ دنیا کےلالچ سے دور دنیا کے گند سے دور ۔
اگر مجھے افسوس ہے تو بلوچ قوم سے ہے کیسے قوم ہوکہ تیری بچیاں درندوں کے جیلوں میں بند ہیں دردناک ازیتیں سہہ رہے ہیں اور بلوچ قوم کے دانشورادیب شاعر ہر اسٹیج پر بیٹھ کر کہتے ہیں جناب ہماری ہزاروں سال پرانی تاریخ ہے کیا تاریخ یہی ہے؟
اگر افسوس ہے اُس بلوچ نوجوانوں سے ہے جو یونیورسٹیوں میں اعٰلی تعلیم حاصل کررہےہیں جو کہ بلوچ قوم کے سامنے انکی وقار ایک چرواہے سے زیادہ ہے کیونکہ کہا جاتا ہےکہ علم و شعور انسان کی تیسری آنکھ کی مانند ہے مگر ہمارے شعور یافتہ نوجوان صرف پاکستانی مشین بننے میں مگن ہیں جیسا کہ زاکر مجید نے کہا تھا کہ بلوچستان میں جب جنگ تیز ہوتی ہے تو سروس کمیشن نوکریاں شائع کرتا ہے تاکہ بلوچ نوجوان اور غلام بننے میں مشغول ہوجائیں اپنی پہچان کو بھول جائیں آج تو وہی ہورہا ہے اپنے سرزمین سے اپنے لوگوں سے اپنی بہنوں نوجوانوں سے جو پاکستانی عقوبت خانوں میں ازیتیں سہہ رہی ہیں ناواقف ہیں۔
اگرمجھے افسوس، ہے تو عورت فورموں سے ہے شائد وہ بھول چکے ہیں کہ ان کا مقصدایک عورت کوسامراجی ظلم جبر کی ازیتوں سے انصاف دلانا ہے۔
اگر مجھے افسوس ہے تو بلوچ اسٹودنٹ تنظیموں سے ہے کیونکہ جو خود کو قوم پرست کہتے ہیں مگر جو قوم پرستی کی معیارہے اُسے شائد بھول چکے ہیں، اس لیئے دو مہینوں سے ماہل بلوچ ، پاکستان کی جیلوں میں ازیتیں سہہ رہی ہے اور قوم پرستوں کے لب سِل گئے ہیں بلوچ کہنا بہت آسان ہے حقیت میں بلوچ ہونا بہت مشکل ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں