قرآن کریم میں قوموں کا نشیب و فراز – اسماعیل حسنی

474

قرآن کریم میں قوموں کا نشیب و فراز

تحریر: اسماعیل حسنی

دی بلوچستان پوسٹ

نزول قرآن کے وقت یعنی چھٹی صدی عیسوی میں عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج اتنا کم تھا کہ مکہ مکرمہ جو ام القری (شہروں کی ماں) کہلاتا ہے، دنیا کی اسٹیبلش ہسٹری کے مطابق نزول قرآن کے وقت مکہ میں فقط 16 یا 17 آدمی ہی ایسے تھے جو کچھ لکھ پڑھ سکتے تھے، ان لوگوں کی لکھت پڑھت بھی ابتدائی اور بنیادی چیزوں سے متعلق تھا کوئی تحقیقی فنون یا گہری مہارتوں پر مشتمل نہیں تھا۔ مکہ مکرمہ کی حیثیت عرب دنیا میں ایک مرکزی شہر کا تھا۔ دارالخلافہ سے ہٹ کر بھی وہ ہر لحاظ سے مرکزیت کا حامل شہر تھا۔

کائنات کے ارض و سماوٰی اور اجرامِ فلکی سے متعلق دنیا پر بطلیموسی تصورات کے افکار غالب تھے کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گردش کرتا ہے، یہی وہ تصورات تھے جو عیسائی اور یہودی مذاہب کے فلکیاتی نظام سے متعلق عقائد کےلئے بنیاد بنے تھے اور پھر روایات کی رو سے مشرف بہ اسلام ہوکر ہمارے ہاں بھی در آئے، ہندومت مذاہب عالم میں سب سے قدیم ترین مذہب سمجھا جاتا ہے۔ اس کے تصورات عیسائی اور یہودی افکار سے بھی زیادہ فرسودہ اور مبنی بر اوہام تھے، ان کے ہاں زمین کے متعلق یہ تصور تو اب بھی رائج ہے کہ زمین کے نیچے ایک سمندر ہے، سمندر میں ایک مچھلی ہے، مچھلی کے اوپر ایک بیل یا گائے ہے، اس بیل یا گائے کی سینگوں کے اوپر یہ دھرتی ماتا ہے، دھرتی ماتا ہر وقت اس گائے یا بیل کی ایک سینگ کے اوپر ہے، جب اس کی ایک سینگ تھک جائے تو زمین کو دوسرے سینگ پہ لاتی ہے، جس سے زمین پر زلزلہ کا حادثہ پیش آتا ہے۔

اندازہ کیجیے یہ مقدس ترین اور قدیم کتاب ویدوں کی تعلیم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ویدوں کی اس تعلیم کے ایک ماہر جیسے ہندو مذہب میں بوجھ بھجکڑ کہا جاتا ہے۔ (جس کے پاس لوگ مذہبی فتوی و استفسار کےلیے آتے) وہ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ یہ جو ثوریہ ستارہ ہے، اس نے کسی سے قرض لے لیا تھا جوکہ مطالبہ پر قرض خواہ کو وقت یہ نہ دے سکا، اس کے سزا کے طور پر گلے میں رسہ ڈال کر اس کا منہ کالا کر دیا گیا۔ جس سے یہ ستارہ تاریک ہوگیا۔ یوں جب چاند گرہن اور سورج گرہن ہوتا ہے تو ہندو مذہب کے پنڈت اور برہمن (جیسے ہمارے ہاں مولوی اور مفتی کو مرجع تقلید سمجھا جاتا ہے) عوام سے کہتے کہ جلدی جلدی پیسے، زیور وغیرہ قیمتی اشیاء لاؤ تاکہ ہم دیوتا سے مل کر آپ کی طرف سے گناہوں کے قرض چُکائیں اور آپ کو سزا سے چھٹکارا دلوائیں۔ دوران گرہن اتنے میں مال و مواد اکٹھا ہونے لگتا ہے تو ادھر سے گرہن بھی ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے، جتنا دیر تک گرہن ہو ہندو اتنے زیادہ گناہ گار ہوتے ہیں اور پنڈتوں و برہمنوں کو اتنا زیادہ مال سمیٹنے کا موقع ملتا ہے اور اگر گرہن کم ہو تو گناہ بھی کم اور گناہ کے سزا سے خلاصی کےلیے مذہبی ٹھیکیداروں کی کمائی بھی اتنی ہی کم ہوجاتی ہے۔

اندازہ کیجیے یہ افسانے نہیں سابقہ الہامی کتب کے تصورات ہیں۔ ایسی ہی تصورات ہمارے ہاں بھی در آئے ہیں، یہی تصورات یہودیوں میں بھی ہیں اور عیسائیوں میں بھی اور وہیں سے ہمارے ہاں بھی آئے ہیں، آپ ذرا عرش الہی سے متعلق تصورات پڑھ لیں تو حیرت ہوگی کہ عرش کی بنا سات پہاڑی بکریوں کی سینگوں پر ہے، یہ پہاڑی بکری سمندر میں کھڑے ہیں، سمندر ساتویں آسمان کے اوپر ہے وغیرہ وغیرہ، اب عیسائی مذہب کا عقیدہ ہے کہ جہاں خدا کا بیٹا (العیاذ باللہ) حضرت عیسیٰ آیا ہے، مرکزیت اسی مقام کو حاصل ہوجانا چاہیے اور یہودی مذہب کا تصور فکر یہ ہے کہ خدا کے بیٹے (ثم العیاذ باللہ) حضرت عزیر کی مقام ولادت و بعثت کو یہ مقام حاصل ہونا چاہیے، اس کےلیے یروشلم کو مرکز و قبلہ کا درجہ دے دیا گیا۔

یہ تصورات چھٹی صدی عیسوی میں رائج تھے جب قرآن کا نزول ہوگیا۔ قرآن کریم نے ان تصورات کو یکسر رد کر دیا ہے۔ ایک نیا تصور دے دیا جس کی تائید جگہ جگہ جدید سائنس کو بھی کرنا پڑ رہی ہے، جدید سائنس کے بانی مسلمان ہی ہیں لیکن ہزار سال سے زیادہ عرصہ اس کو آگے نہیں بڑھنے دیا گیا، امام غزالی اسلام میں ایک بہت بڑے مفکر عالم سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے شرع میں عقل کے استعمال پر پابندی کے نظریے کا بانی ہے، یوں اس دور سے لیکر اب تک عقل و شرع کو باہم ضدین سمجھا جاتا ہے، 16ء ویں صدی میں مغرب نے جب مذہب کو کلیسا تک محدود کردیا تو کچھ عرصہ بعد ہی اس نے جدید تحقیق میں ایک زبردست عملی پیشرفت کی ہمارے ہاں ہلال کی رؤیت و عدم رؤیت کا فیصلہ اب بھی مذہبی طبقہ کرتا رہتا ہے، سال میں بارہ ہلال ہوتے ہیں، جیسے شادی اور جنازے (غم و خوشی) پہ مولوی لڑتے ہیں ایسے ہی محرم یا عیدین کی چاند کو ہی باعث نزاع بناتے ہیں جیسے کہ سال میں دو تین دفعہ ہی چاند نکل آتا ہے۔

17ء ویں صدی جس میں تاریخ انسانیت میں پہلی دفعہ اٹلی کے ایک ماہر فلکیات اور ریاضی دان گلیلو گلیلی جس نے 1609ء میں دوربین ایجاد کی اور زمین سے متعلق یہ جدید نظریہ پیش کیا کہ متحرک ہے ساکن نہیں، جیسے کہ ابھی ذکر ہوا کہ معاشرے پر مذہبی افکار اور کلیسائی آثار ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے تھے، اس لئے ان کے خلاف فوراً تکفیر کا فتوی آگیا کہ یہ ”وہابی“ یا ”پنجپیری“ ہوگیا ہے۔ (یاد رہے کہ تکفیر کا فتویٰ صرف ہمارے ہاں نہیں بلکہ تمام مذاہب میں رائج ہے، یہ تعطل و جمود کو برقرار رکھنے کےلیے تحقیق و جستجو کے خلاف ایک منظم اور مربوط مذہبی ہتھیار ہے۔) یوں عیسائی مذہبی پیشواؤں نے گلیلو گلیلی کو پھانسی پر چڑھانے کی سفارش کی۔ اس فیصلے کا متن یہ تھا کہ گلیلو کو بلند ترین مقام ”پیسا ٹاور“ پر کھڑا کرکے اوپر سے نیچے پھینک دیا جائے۔

اس واقعہ میں بنظرِ غائر دیکھا جائے تو عیسائی دنیا کے مذہبی پیشوا ہمارے پیشواؤں سے قدرے منصف مزاج گزرے ہیں، یہ یوں کہ وہ جب کسی کے خلاف فتوی دیتے تو پہلے انہیں ایک موقع بھی دیتے کہ صفائی پیش کرکے اپنے موقف سے رجوع کرے اور پھر توبہ کرے، ہمارے ہاں جس پر ایک دفعہ الزام عائد کیا گیا کہ یہ یہودی ایجنٹ ہے یا اسرائیل کا نمائندہ ہے تو یہ داغ اس کے دامن پر اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک وہ بلیک میل نہ ہوجائے، اگر بلیک میل ہوئے اور رجوع کیے بغیر دنیا سے رخصت ہوجائے تو اس کی نسل کو یہ سزا بھگتانی پڑے گی کہ آپ کے آباء میں سے فلاں نے یہ موقف کیوں اختیار کیا تھا، اس پر ایک تازہ واقعہ رمضان شریف میں پیش آیا بتانے کا یہ موقع نہیں، چنانچہ آخری وقت میں گلیلو کو جب پادری کے سامنے پیش کیا گیا تو پادری نے گلو خلاصی کےلئے ان سے کہا کہ آپ کہہ دیں کہ زمین ساکن ہے متحرک نہیں، گلیلو نے کہا کہ جب میری آنکھیں دیکھ رہی ہے کہ زمین متحرک ہے تو میں کیسے کہوں کہ ساکن ہے؟ اندازہ کیجیے تین سو سال قبل تک مغرب کے فلکیاتی علوم اور کائناتی افکار پر مذہبی تصورات کچھ اس طرح جزؤ عقیدہ کے طور پر غالب تھے۔ یہی کاپر نیلو اور کیپلر جیسے عظیم سائنسدانوں کا عہد ہے جس میں یورپی دنیا جی رہی ہے۔ یہ کوئی نظریہ پیش کرتے ہیں تو مذہبی طبقہ کی طرف سے فتویٰ کی صورت میں اس پر فوراً رد آجاتا ہے، یہ سائنسدان جو بھی درست تحقیق اور تخلیقی نظریہ ماحصل کے طور پر پیش کرتے ہیں، قرآن کریم نے چھٹی صدی عیسوی میں اس فکر و نظر سے متعلق واضح رہنمائی کی ہوتی ہے، قرآن کریم چھٹی صدی عیسوی میں انسان کو مظاہر فطرت پر غور و فکر کے بعد گلیلو سترہویں صدی میں چشم دید حقائق کے اعتراف سے رو گردانی نہیں کرسکتے اور وہ دور بین ایجاد کرکے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میری کی آنکھیں جب دیکھ ہی رہی ہیں کہ زمین متحرک ہے تو میں کیسے کیوں کہ یہ ساکن ہے ؟

جب قرآن کریم چھٹی صدی کہہ رہا ہے کہ
اَوَلَمۡ يَرَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ كَانَـتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰهُمَا‌ ؕ وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ كُلَّ شَىۡءٍ حَىٍّ‌ ؕ اَفَلَا يُؤۡمِنُوۡنَ
اس جستجو کے اولین مخاطب وہ عرب تھے جن کا تذکرہ اوپر ہوگیا، یورپ کی علمی حالت یہ ہے وہ اس تحقیق پر اپنے محققین کو سزاء موت دینے کی نویدیں سناتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ قرآن نے صریح الفاظ میں کیوں بیان نہیں کیا؟ اس کا سادہ جواب یہی ہے کہ پانچویں کی جماعت میں بچے کو آئن سٹائن کا نظریہ تو نہیں سمجھایا جاسکتا بلکہ اس کے لئے مطلوب استعداد درکار ہوتا ہے۔ اب قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جو نظریہ گلیلو گلیلی نے 17ء ویں صدی میں پیش کیا تھا،

قرآن کریم نے چھٹی صدی میں اس سے پردہ اٹھاتے ہوئے یوں فرمایا کہ:
وَجَعَلۡنَا فِى الۡاَرۡضِ رَوَاسِىَ اَنۡ تَمِيۡدَ بِهِمۡ
”ہم نے زمین کو ایسے بنایا کہ وہ گھومتی رہے۔“
دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَاَلۡقٰى فِى الۡاَرۡضِ رَوَاسِىَ اَنۡ تَمِيۡدَ بِكُمۡ
ان دونوں آیتوں میں تَمِيۡدَ کا لفظ قابل غور ہے، اصل میں تَمِيۡدَ کا لفظ ”م ی د“ کے مادہ سے مشتق ہے جس کا معنی بنتا ہے بڑی تیزی سے متحرک ہونا۔ پہلی آیت میں ہے بِهِمۡ یعنی انسانوں کےلیے ہم بنایا، دوسری آیت میں ہے آپ کےلیے بنایا، بتکرار ذکر ہے، تکرار بغرضِ تاکید ہے۔ یعنی زمین کو ایسے بنادیا کہ تم آرام و سکون سے بیٹھے رہو اور وہ تمہیں لیکر گھومتی رہے اور اس میں مضبوط قسم کے پہاڑ بھی ہو۔ عربی زبان میں ”ماد“ کا معنی ہے شدت سے ہلنا اور حرکت کرنا۔ (محيط المحیط، تاج العروس) حاملین قرآن ہونے کا دعوی ہمارا ہے اور مغربی سائنس دان یہ ثابت کر رہے ہیں جو قرآن کا دعوی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم پر فقط ایک مذہب، قوم یا نسل کی اجارہ داری نہیں بلکہ یہ سب کےلئے مشعل راہ ہے۔ آفاق و انفس پر پڑے پردوں کو اٹھانا، دعوی کے مطابق ہمارے علماء کا کام تھا لیکن یہ ذمہ داری جدید سائنس دانوں نے سنبھالی ہے۔ یہی وہ باریک نکتہ ہے جس کی طرف قرآن نے واضح الفاظ میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
اِنَّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ
(الرعد، 13: 11)
’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔‘‘

فکر کی تبدیلی سے عمل میں تبدیلی آسکتی ہے، عمل کی تبدیلی ہی اجتماعی زوال کو عروج میں بدل سکتا ہے اور قومی نشیب کو فراز بنا سکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں