فدائی شارل کا دن
تحریر: ساحل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
روزمرہ کے طرح صبح سویرے کیمپ کے ساتھ والے چوٹی پر جب میں نگرانی کرنے پہنچا تو ایک عجیب کیفیت مانو چایا ہوا تھا ہر طرف خاموشی کا سما تھا وہ بلبل جو ہمیشہ صبح سویرے اپنے میٹھی ترانوں سے روح کو سکون بخشتی تھی لیکن اُس دن ایسا لگا جیسے کہ اُنہوں نے گیت گانے بند کردیے تھے، وہ اونچائیوں کے پرکشش نظارے مانو جیسے پیکھے پڑ چکے تھے، تیز ہوا کے جھونکے پہاڑوں سے ٹکرا کر چیخ رہے تھے، وہ عالم جیسے کچھ کہہ رہا تھا مگر کہہ نہ سکا، ہوائیں کسی انجان خوشبو سے سرشار تھے۔ انسانی بستیوں سے ہزاروں میل دور ان ہواؤں میں خوشبو کا ہونا میرے لئے حیران کن لمحہ تھا، کچھ دیر بیٹھنے کے بعد میں نے آس پاس دوربین سے ریکی کرنا شورع کر دیا تاکہ کسی قسم کی نقل و حرکت کو دیکھ سکوں، ساتھ ہی میں نے واکی ٹاکی کھول کر اپنے سامنے رکھ دیا کیونکہ ساتھ والے کیمپوں کے دوستوں سے خبر رسائی ہوسکے، لیکن بہت وقت گذرنے کے بعد بھی کسی قسم کا رسائی ممکن نہ ہوسکا۔
عموماً صبح سویرے دوستوں سے رابطے ہوتے تھے تقریباً 12 بجے کے قریب نیچے کیمپ سے دوستوں کی آواز سنائی دی، وہ مجھے پکار رہے تھے تو میں نے ساز و سامان اکٹھے کئے اور نیچے کیمپ کی طرف روانہ ہوگیا، دوستوں سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے 3 بجے میں واپس اوپر چڑھ گیا، کبھی کبھار تیز ہواؤں کی وجہ سے واکی ٹاکی میں سگنل کے مسائل ہوتے تھے، اوپر پہنچنے کے کچھ دیر گزرنے کے بعد واکی ٹاکی سے کسی کے کلچ دینے کی آواز سنائی دی جسے سن کر میں اُن سے مخاطب ہوا تو دوسری جانب گشتی ٹیم کے کچھ دوست واکی ٹاکی پر تھے، سلام دعا کے بعد دوستوں نے کہا کہ کراچی میں جند ندری (فدائی) حملہ ہوا ہیں۔ اس حال کو سن کر میں جلدی سے پوچھنے لگا کہ کون ہیں وہ وطن کا دیوانہ، کچھ لمحہ گزرنے کے بعد سامنے سے جواب ملا سنگت شاری بلوچ۔۔۔
یہ خبر سن میں دھنگ سا رہے گیا، جیسے روح کو جسم سے جدا پایا ہوں، کچھ دیر بعد ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد میں نیچے کیمپ کی طرف روانہ ہوگیا، وہاں پہنچ کر دوستوں نے پوچھا کیا حال ہیں، تو میں نے بتایا کہ بلوچ شیرزال شاری بلوچ نے جندندر حملہ کیا ہیں، یہ حال سن کر سب دوست قربان، قربان بولنے لگے۔ ایک طرف گودی شارُل کے اس عمل سے ہمارا سینا چھوڑا ہوگیا تھا کیونکہ وہ پہلی بلوچ فدائی خاتون تھی، آزادی کی جہدوجہد میں بلوچ مائیں بہنیں ہمارے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، وہ بحیثیت خواتین اپنے آپ کو قربان کرکے آزادی کی حقیقی راہ دکھا رہے ہیں اور دوسری طرف خود کو دیکھ کر من ہی من میں شرمندگی سے دوچار ہورہا تھا۔
وہ شاری تھی جو عشقِ وطن میں دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ پڑی تھی، وہ شاری تھی جس نے راہ آجوئی میں اپنے خون کو ایندھن بنا کر شمع جلایا تھا، وہ بلند حوصلوں کی مالک شاری تھی جس کی حوصلہ بولان اور چلتن کے پہاڑوں سے بھی زیادہ بلند تھے، وہ خوش قسمت شاری تھی جس نے موت کو سینے سے لگاکر مات دی تھی اور خود ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئی، وہ شاری تھی جس کی خوشبو ہواؤں میں چاروں جانب مہک رہی تھی، شارُل نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ کس طرح انسان راہِ حقیقت پر چل ایک معمولی انسان سے غیرمعمولی بن سکتا ہیں۔
ایک تاریخی کہانی، ایک ماں کی کہانی شارُل نے بلوچ قومی تحریک میں ابد ہونے کی داستاں اپنی لہو سے لکھی ہیں اس کائنات میں موجود سارے الفاظ جو بہادری جرات و دلیری کے لئے استعمال ہوتے ہیں لیکن جہاں شارُل آپ کا نام آتا ہیں وہاں یہ سارے مصنوعی الفاظ سسک سسک کر رونے لگتے ہیں کیونکہ ان الفاظ میں اتنی طاقت نہیں جو آپ کی ہمت کو بیان کرسکے، کوئی بھی منصب اس قدر لائق نہیں جو آپ کو بیان کر سکے۔
میرے جیسے انسان کے ذہین نے کبھی خواب میں تصور نہ کیا ہوگا کہ بلوچ قومی تحریک میں بلوچ خواتین اس قدر قربانی دینگی، کسی بھی انسان کے لئے اپنے پیاروں کو چھوڑنا انتہائی کٹھن عمل ہوتا ہیں شارل جانتی تھی کہ غلامی میں انصاف صرف ایک سے ہوسکتا ہیں خود سے یا آزادی سے اس لئے شارل نے اپنے خاندان اپنے بچوں اور اپنی ذاتی خواہشات کو قربان کرکے آزاد وطن اور آزادانہ زندگی کو اولیں ترجیح دینا افضل سمجھا، یہ عشقِ انتہاء ہی ہیں جو ایک ماں اپنے معصوم بچوں کو چھوڑ سکے، شارل اُن ہزاروں ماوں کے درد سے بخوبی واقف تھی، ایک ماں ہی جانتی ہیں اُس کے سینے میں چھپے غم کے راز، ایک ماں ہی جانتی ہیں اُن ہزاروں مسخ شدہ لاشوں کا غم جو ہر نئے دن ویرانوں پر پڑیں ملتے ہیں۔ شارل نے شعور یافتہ انسان ہونے کی حثیت سے انفرادیت سے زیادہ اجتماعیت کو ترجیح دینا ضروری سمجھا، وہ شعور جو سچ کی صداقت سے بخوبی واقف ہو، آپ جانتی تھی کہ آزادی فقط قربانی سے حاصل کی جاسکتی ہے، شارل نے اپنی عمل سے یہ ثابت کردیا کہ غلام قومیں صرف قربانی سے ہی زندہ رہتے ہیں، اس دنیا میں اُن محکوم قوموں نے اپنا وجود قائم رکھا ہیں جنہوں نے ظلم کے خلاف ہتھیار اٹھایا ہو، وہ قومیں جنہوں نے غلامی کو خدا کی رضامندی یا اپنا مقدر سمجھا ہو، آج اُنہی قوموں کے نام و نشان صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئے ہیں، شارل بلوچ نے ثابت کردیا کہ بلوچ خواتین کا کردار مردوں سے کم نہیں چاہے وہ جنگی میدان ہی کیوں نہ ہو، آج شارل جسمانی حوالے سے ہم سے جدا ہیں مگر آپ کی سوچ و نظریہ، فکر و جرات، بلوچ قومی نظریے میں منسلک ہیں، شاری بلوچ نے اپنی قربانی سے بلوچ قومی تحریک میں وہ بیج بوئے ہیں جن کا ثمر ہزاروں شاریوں کی صورت آنے والے وقتوں میں آئے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں