عسکریت پسندوں کے تازہ حملوں سے سی پیک کو بڑا دھچکہ لگ سکتا ہے۔ مبصرین

1200

جرمن نشریاتی ادارے ڈویچ ویلے سے منسلک صحافی عبدالغنی کاکڑ کے مطابق کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر اضلا ع میں بدامنی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے صوبے میں سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی۔ تجزیہ کاروں کے بقول موجودہ صورتحال سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سی پیک کو بڑا دھچکہ لگ سکتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ صوبے میں بلوچ عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حالیہ حملوں سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سی پیک کو بڑا دھچکہ لگ سکتا ہے۔ گلزار امام عرف شمبے کی گرفتاری پاکستان کے خفیہ اداروں کی ایک کارروائی کے دوران عمل میں آئی تھی ۔

بلوچستان میں آزادی کے لیے برسر پیکار عسکریت پسند تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے سربراہ گلزار امام عرف شمبے بلوچ راجی آجوئی سنگر نامی کالعدم تنظیم کی تشکیل میں بھی مرکزی کردار ادا کر چکے ہیں۔ چار بلوچ عسکریت پسند گروپوں کی یہ مشترکہ تنظیم ( براس) بلوچستان سمیت ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے کئی بڑے حملوں میں ملوث رہی ہے۔

کوئٹہ میں تعینات ایک سینئیر سکیورٹی اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کے تازہ حملے ریاستی عمل داری کو کمزور کرنے کی ایک کوشش ہے ۔

انہو ں نے کہا،”یہ دہشت گردی کی ایک نئی لہر ہے اور تازہ حملوں کی تمام کڑیاں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان حملوں میں ملوث عناصر ایک مخصوص منصوبے کے تحت امن و امان کی صورتحال کوسبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں قیام امن کی صورتحال جب بھی خراب ہوتی ہے تو اثرات پورے ملک پر مرتب ہوتے ہیں۔ آج بھی کوئٹہ کے قریب کچلاک میں جو چار سکیورٹی اہلکار ایک آپریشن کے دوران ہلاک ہوئے انہیں اُنہی ملزمان نے نشانہ بنایا ہے جو کہ کوئٹہ مچھ اور دیگر علاقوں کے حالیہ بم دھماکوں میں ملوث رہے ہیں۔‘‘

اس سکیورٹی اہلکار کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر میں ملوث ملزمان کے خلاف گھیرا تنگ کردیا گیا ہے اور تحقیقات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ ان کے بقول، ”ہماری ٹیمیں تمام پہلوؤں پر کام کررہی ہیں اور حالیہ واقعات کے بعد جو شواہد اکھٹے کیے گئے ہیں ان سے عسکریت پسندوں کے درمیان رابطوں اور ان کے مین نیٹ ورک کا بھی سراغ ملا ہے۔ ان تمام معاملات میں گلزار امام کی گرفتاری بھی کئی حوالوں سے اہم ہے کیونکہ سکیورٹی ایجنسیز اب عسکریت پسندوں کے مرکزی نیٹ ورک تک پہنچ چکی ہیں۔‘‘

بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کی مشترکہ تنظیم ( براس ) کافی عرصے سے حکومت کو صوبے میں ہونے والی غیرملکی سرمایہ کاری بند کرنے کی دھمکیاں دیتی رہی ہے۔ سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئر پر ہونے والے کئی حملوں کی ذمہ داری بھی براس قبول کرچکی ہے ۔

سی پیک منصوبے میں بلوچستان کے مجموعی مفادات کو نظرانداز کرنے کے معاملے کو بلوچستان کی بلوچ قوم پرست جماعتیں بھی تسلسل کے ساتھ تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں ۔

سکیورٹی امور کے تجزیہ کار ندیم خان کہتے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے حکومت کو صوبے کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا ہوگا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،”بلوچستان میں موجودہ شورش اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک یہاں اٹھائے گئے اقدامات میں صوبے کے تحفظات کو زیر غور نہیں لایا جاتا۔عسکریت پسند تنظیمیں حملوں میں تیز ی لا کر ریاستی رٹ کو کمزور کرنے کی کوشش کررہی ہے اگر یہ حملے اسی طرح جاری رہے تو اندیشہ ہے کہ صورتحال مذید خراب ہوسکتی ہے ۔ “

ندیم خان کا کہنا تھا کہ امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے صوبے میں غیرملکی سرمایہ کاری پرانتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا،”بلوچستان میں توانائی ، سمیت دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کر نے والی غیرملکی کمپنیاں سکیورٹی امور پر یہاں کافی تشویش کا شکار ہیں۔ ایک طرف عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیز ی آرہی ہے اور دوسری طرف غیر یقینی صورتحا ل کے باعث حکومتی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔‘‘

نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں غیرسنجیدہ اقدامات ہمیشہ قومی معاملات کو بگاڑ دیتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ”بلوچستان کے وسائل کی تقسیم اور معاہدوں کے حوالے سے آنے والے تحفظات مرکزی حکومت ہمیشہ نظرانداز کرتی رہی ہے۔ اگر سی پیک منصوبے کے حوالے سے زمینی حقائق مدنظر رکھ کر اقدامات کیے جاتے تو آج یہ حالات اتنے گھمبیر نہ ہوتے۔ بلوچستان کے وسائل کے حوالے سے ہونے والے معاہدوں میں حقیقی قیادت کو نظرانداز کرنا حکومت کی سب سے بڑی غلطی ہے۔‘‘

ڈاکٹر مالک کا کہنا تھا کہ بطور وزیراعلیٰ انہیں بھی سی پیک منصوبے کے اہم امور سے دور رکھا گیا۔ ان کے بقول،”دیکھیں بلوچ قوم ترقی کی کبھی خلاف نہیں رہی ہے۔ یہاں جو اقدامات اٹھائے جاتے ہیں ان کے نتائج سے متعلق پہلے کوئی غور و فکر نہیں کیا جاتا۔ میں جب وزیراعلیٰ تھا تو سی پیک منصوبے کے کئی اہم امور مجھے اعتماد میں لیے بغیر طے کیے گئے۔ گوادر بلوچستان کی شہ رگ ہے یہاں اس اہم ترین اسٹریٹیجک اثاثے سے جب مقامی لوگ مستفید نہیں ہوں گے تو صورتحال کس طرح بہتر اور مزاحمت ختم ہوسکتی ہے ۔”

ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ ریکوڈک کے حالیہ معاہدے میں بھی حکومت نے انتہائی عجلت میں تمام معاملات طے کیے اسی لیے اس معاملے میں بھی لوگوں کے تحفظات بڑھتے جا رہے ہیں۔

کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر اضلا ع میں بدامنی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت نے صوبے میں سکیورٹی ہائی الرٹ کردی ہے ۔

آج بروز منگل عسکریت پسندوں نے بولان کے علاقے مشکاف میں کوئٹہ سے لاہور جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس کو بھی بم سے اڑانے کی کوشش کی۔ تاہم اس دھماکے میں ٹرین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا صرف ریلوے ٹریک متاثر ہوا ہے ۔

واضح رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران بلوچستان میں فوجی آپریشنز کے دوران بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے کئی کمانڈر ہلاک ہوچکے ہیں۔ انٹیلی جنس ایجنسوں نے مختلف کارروائیوں کے دوران گرفتار کیے گئے بلوچ سیاسی کارکنوں پر بھی عسکریت پسندوں سے تعلق کے الزامات عائد کیے ہیں ۔