چار سینئر امریکی حکام نے منگل کے روز بتایا ہے کہ افغان طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے دوران دارالحکومت کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر خودکش بم دھماکے کے ذمہ دار اسلامک اسٹیٹ گروپ کے رہنما کو ہلاک کر دیا ہے۔
اس حملے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 170 شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
امریکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انتظامیہ نے کابل خود کش حملے میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کے رشتہ داروں کو پیر کے دن سے فون پر مطلع کرنا شروع کر دیا تھا کہ دہشت گرد گروپ کے سربراہ کو حالیہ ہفتوں میں طالبان کی سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس تجزیہ کاروں کو اپریل کے اوائل میں معلوم ہوا تھا کہ حملے کا ماسٹر مائنڈ، جس کی شناخت بتانے سے انہوں نے گریز کیا ہے، افغانستان میں طالبان کی کارروائی میں مارا جا چکا ہے۔ حکام نے بتایا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا طالبان نے اسے بطور خاص نشانہ بنایا یا وہ طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کے درمیان ایک لڑائی میں مارا گیا ۔
حکام کا کہنا تھا کہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر تجزیہ کاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہوائی اڈے پر حملے کا مرکزی منصوبہ ساز مارا گیا ہے۔ لیکن حکام نے اس کی مبینہ ہلاکت کے بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
کابل ایئرپورٹ پر یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب ملک سے باہر جانے والی پرہجوم پروازوں میں سے ایک پر ہزاروں افغانوں کی اسکریننگ کی جا رہی تھی۔ یہ منظر اس وقت ایک بڑی ہولناک تباہی میں بدل گیا جب ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ داعش گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
کابل ایئر پورٹ کے ایبی گیٹ پر اس دھماکے سے چند گھنٹے قبل مغربی حکام نے ایک بڑے حملے کا انتباہ جاری کیا تھا ، جس میں لوگوں کو ہوائی اڈے سے نکل جانے کی اپیل کی گئی تھی۔ لیکن اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔
واشنگٹن ایگزامینر نے امریکی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکہ نے داعش کے لیڈر کے خلاف کاروائی میں کوئی مدد فراہم نہیں کی اور یہ آپریشن مکمل طور پر طالبان کی طرف سے کیا گیا تھا۔
’’ طالبان کے آپریشنز کے بارے میں بات کرنا یا کوئی اعلان کرنا ہمارے معمول کا حصہ نہیں ہے تاہم ہم نے چاہا کہ اس خبر کے بارے میں امریکی عوام کو اور اس حملے میں ہلاک ہونے والے تیرہ میرینز کے گھر والوں کو معلوم ہونا چاہیے۔ ‘‘
ڈیرن ہوور اس جوان سال ڈیرن ٹیلر ہوور کے والد ہیں جو کابل دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ڈیرن نے بتایا ہے کہ انہیں منگل کے روز ایک نامعلوم داعش لیڈر کی نامعلوم حالات میں ہلاکت کی اطلاع دی گئی ہے۔
ڈیرن ہوور کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی اہلیہ پچھلے ڈیڑھ سال سے دکھ اور تکلیف میں ہیں۔ ان کے بقول ایک نامعلوم داعش لیڈر کی موت ان کے دکھ میں کمی نہیں آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دعا کرتے رہیں گے کہ بائیڈن انتظامیہ کی افغانستان سے فوجی انخلا میں روا رکھی گئی کوتاہیوں پر جوابدہی ہو۔
اسلامک اسٹیٹ کی افغانستان میں قائم شاخ ، جسے داعش خراسان بھی کہا جاتا ہے، جس کے ارکان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق تقریباً چارہزار ہے، طالبان کا سب سے بڑا دشمن اور عسکری اعتبار سے ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ گروپ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے اپنی کارروائیاں بدستور جاری رکھے ہوئے ہے اور ان کا زیادہ تر نشانہ اقلتیں بن رہی ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے لیے طالبان کے ساتھ 2020 کے معاہدے تک پہنچنے کے بعد اور بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے 2021 میں اس معاہدے پر عمل درآمد سے ، واشنگٹن میں امید پیدا ہو گئی تھی کہ طالبان کی بین الاقوامی شناخت اور ملک کی غریب آبادی کے لیے امداد کی خواہش پوری ہو سکتی ہے۔
لیکن امریکہ اور طالبان کے درمیان تعلقات اس وقت سے نمایاں طور پر خراب ہو گئے ہیں جب انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی اور خواتین کو بین الاقوامی امداد اور صحت کے اداروں کے لیے کام کرنے اور انہیں گھروں سے باہر نکلنے سے روکنے کے احکامات جاری کیے۔