سیاسی نظریہ یا نظریہ ضرورت
تحریر: برکت مری پنجگور
دی بلوچستان پوسٹ
سوال ہی معاشرے کی بہترین راہشون ہے، جس معاشرے میں سوال پر پابندی عائد کی جاتی ہے وہاں معاشرہ ذہنی غلام بن جاتی ہے تو سوال یہ ہے کہ ہر سیاسی اسٹیج میں سیاسی کارکنان یا لیڈران برملا کہتے آرہے ہیں کہ ہم اپنے قوم کی ترقی انکی خوشحالی کیلئے سیاسی نظریہ رکھتے ہیں پھر سوال یہ ہے کہ سیاسی نظریہ کس شے کو کہتے ہیں سیاسی نظریے کا مقصد کیا ہے وہی لوگ سیاسی نظریہ رکھتے ہیں جو اس جملے کو استعمال کرتے ہیں کہ جنہوں نے جب سے پارٹی بنائی ہے انکے تاحیات صدر ہیں یا کسی پارٹی کے اہم رکن اہم عہدیدار ہیں اور ہر الیکشن کے امیدوار ہیں کیا سیاسی نظریہ شخصیت پرستی شہرت اقتدار رتبہ حاصل کرنے کا نام ہے؟ اگر عہدہ اقتدارِ رتبہ شہرت دولت حاصل کرنا ہے تو نظریہ ضرورت کیا ہے تو پھر کئی سوال خواہ مخواہ اٹھنے شروع ہوتے ہیں کہ قوم پر مرمٹنے والے فکر اپنی قومی حقوق قومی مظلومیت محکومیت کو دور انکے بنیادی ضروریات و سہولیات کے عدم رسائی پر جدوجہد کرکے قوم کو دلانے انہیں پر سکوں آسودہ بنانے کے جہد کار کو کیا کہتے کیا یہی تو سیاسی نظریہ نہیں ہے؟
بالکل انہیں کبھی سیاسی نظریہ نہیں کہتے ہیں کہ اقتدار رتبہ شہرت انکی وراثت ہو صرف میں اور میں ہوں، اگر دیکھا جائے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ہی ایک سیاسی نظریہ کا تنظیم تھا جہنوں نے اسٹوڈنٹس و آنے والے نسل کیلئے سیاسی نظریہ کا شعور بیدار کی تھی لیکن سیاسی نظریہ کے نام نہادوں نے بی ایس او کو تقسیم کرکے اپنی نظریہ ضرورت کو ترقی دی گزشتہ دور میں بی ایس او کی پالیسی ایک لوکل بنانے کیلئے انکی تصدیق ضروری سمجھا جاتا تب جاکر ایڈمنسٹریشن نے وہ لوکل جاری کیا لیکن اسکی تقسیم کے بعد آج بلوچستان میں ایرانی افغانی ودیگر صوبے کے نژاد بلوچستان کے شناختی لوکل اولڈر ہیں جو بلوچستان کے اصل مقامی لوگوں کی حق زنی کررہے ہیں جس کے زمہ دار نظریہ ضرورت کے پیروکار ہیں۔
ہر انسان کا اپنا نظریہ ہوتا ہے کسی کی قوم پرستی کی کسی کی مفاد پرستی کی یہی فرق ہے سیاسی نظریہ و نظریہ ضرورت کی، انسان کیلئے خود کش دھماکا کرنا کہنے سننے میں آسان سا جملہ ہے لیکن حقیقتاً عملی صورت میں کرنا محسوس کرنا بہت مشکل ہے دیکھا جائے خود کش کرنے والے شخص اپنے نظریے پر کاربند و مخلص ہے وہ جان سے ذیادہ اپنے نظریے کو ترجیح دیتا ہے انہیں اپنی نظریہ ضرورت سے زیادہ مقاصد سیاسی نظریہ زیادہ عزیز ہے آج پنجگور کا انٹرنیٹ ڈیٹا بند ہے وہ سیاسی پارٹیوں کیلئے سیاسی نظریہ کا حصّہ ہے کہ انکی بحالی کیلئے کردار ادا کریں لیکن نہیں کیونکہ انکی نظریہ ضرورت سامنے حائل ہے مکران کے بارڈری کاروبار کو سرکاری غیر سرکاری مافیاز کے قبضے سے چھڑانا کاروباری لوگوں کو دلانا سیاسی نظریہ کا حصّہ ہے لیکن یہاں پھر انکی نظریہ ضرورت حائل ہے کیونکہ وہ خود کاروبار کررہے ہیں انکی ضرورت بن چکی جس کے سودے لگتے ہیں سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔
بلوچستان کے قومی ایشو ساحل وسائل معدنیات اور بنیادی مسائل کا حل کرنے کی جدوجہد سیاسی نظریہ ہے لیکن ہمارے سیاسی جماعتوں کے سربراہان و اہم کارکنان کو طاقتور معاملات پر سوال کرنے کا شوشہ ہے حقیقتاً اقتدار حاصل کرنے کا نظریہ ضرورت سب سے زیادہ عزیز ہے، انکے نام سے سودا لگا کر پھر اقتدار حاصل کرکے خاموشی کا روزہ رکھتے ہیں، آج بلوچستان کے معاملات گزشتہ ستر سالوں سے حل نہیں ہورہے ہیں انکی سب سے بڑی وجہ قوم پرست جماعتوں کی سیاسی نظریہ کے نام پر نظریہ ضرورت کی ترجیحات ہیں، جو عوام کو دھوکہ دے کر خود حاصل کررہے ہیں، یہ انکی نظریہ ضرورت کی مرہون منت ہے کہ آج وہ امیر سے امیر تر ہیں لیکن بلوچستان کے غریب عوام اپنی بنیادی حقوق سے محروم ہیں آگر ان کے دل و دماغ میں سیاسی نظریہ پیوست ہوتی تو آج قوم خوشحال ہوتی اس مظلوم قوم سے درخواست ہے کہ سیاسی نظریہ و نظریہ ضرورت کو پہچانیں ان کی باتوں پر نہ آئیں ورنہ قوم کی بنیادی حقوق و انکی مظلومیت کبھی ختم نہیں ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں