ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس کا خلائی جہاز، جو دنیا کا اب تک کا سب سے بڑا اور طاقتور راکٹ تھا، امریکی ریاست ٹیکساس میں قائم لانچ پیڈ سے چھوڑے جانے کے فوراً بعد ہی تباہ ہو گیا ہے۔
مقامی وقت کے مطابق جمعرات کی صبح ٹیکساس کے مشرقی ساحل سے چھوڑے جانے والے بغیر عملے کے تجرباتی راکٹ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
اب تک کے سب سے بڑا تیار کردہ راکٹ نے پرواز کے دو سے تین منٹ کے بعد ہی بے قابو ہونا شروع کر دیا اور جلد ہی مختلف حصوں میں آگ بھڑکنے سے تباہ ہو گیا۔
ایلون مسک نے اس واقعے پر کہا ہے کہ ان کی کمپنی چند ماہ میں دوبارہ کوشش کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ ’سپیس ایکس کے انجینیئرز اب بھی جمعرات کے مشن کو ایک کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ وہ ’اکثر قبل از وقت تجربہ کرنا‘ پسند کرتے ہیں اور چیزوں کو توڑنے سے نہیں ڈرتے ہیں۔ انھوں نے اگلی پرواز پر کام کرنے کے لیے بہت سارا ڈیٹا اکٹھا کیا ہوگا۔ ایک دوسری سٹار شپ تقریباً اڑان بھرنے کے لیے تیار ہے۔‘
انھوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ’سٹار شپ کی دلچسپ لانچ پر سپیس ایکس ٹیم کو مبارک ہو، چند مہینوں میں اگلے ٹیسٹ لانچ کے لیے بہت کچھ سیکھا۔‘
امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کے ادارے، جو امریکہ میں راکٹ لانچنگ کا لائسنس دیتا ہے، نے کہا کہ وہ حادثے کی تحقیقات کی نگرانی کرے گا۔ ایک ترجمان نے کہا کہ دوران پرواز ایک راکٹ کا تباہ ہو جانا عمومی بات ہے۔
ایلون مسک نے راکٹ لانچ سے پہلے توقعات کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ صرف راکٹ کو زمین سے چھوڑنا اور اس دوران لانچ پیڈ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ نہ کرنا ’جیت‘ سمجھا جائے گا۔
ان کی خواہش پوری ہوئی کیونکہ سٹار شپ نے کامیابی سے اپنے لانچ پیڈ سے اڑان بھری اور خلیج میکسیکو کے اوپر تیز رفتار پکڑی لیکن اس کے اڑان بھرنے کے ایک منٹ کے دوران ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ چیزیں منصوبے کے مطابق نہیں ہوں گی۔
جیسے جیسے راکٹ اوپر کی جانب بڑھتا گیا یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ راکٹ کے نچلے حصے پر موجود 33 انجنوں میں سے چھ بند ہو چکے تھے یا ان میں شعلے بھڑک چکے تھے۔
اور تین منٹ تک پرواز کرنے کے دوران یہ بالکل واضح تھا کہ اب اس پرواز کا اختتام قریب ہے۔ کیونکہ اس موقع پر راکٹ کو نچلے حصے سے الگ ہونا چاہیے تھا مگر وہ درحقیقت اب بھی جڑے ہوئے تھے اور طے شدہ راستے سے ہٹ رہے تھے۔
راکٹ لانچ کے چوتھے منٹ میں سٹار شپ کی بلندی کم ہونا شروع ہو گئی اور پھر نیلے آسمان پر ایک زور دار دھماکہ سنائی دیا۔
سپیس ایکس کمپنی نے ایک بیان میں کہا کہ ’اس طرح کے تجربے سے، کامیابی اس سے ملتی ہے جو ہم سیکھتے ہیں، اور ہم نے آج راکٹ اور زمینی نظام کے بارے میں بہت زیادہ معلومات حاصل کی ہیں جو ہمیں سٹار شپ کی مستقبل کی پروازوں میں بہتری لانے میں مدد کرے گی۔‘
سٹار شپ کا سب سے اوپر والا حصہ جسے جہاز بھی کہا جاتا ہے، نے پہلے چھوٹی اڑان بھری تھی۔ لیکن یہ پہلا موقع تھا جب اسے نچلے حصے کے ساتھ لانچ کیا گیا تھا۔
فروری میں اس کے ساتھ ایک بہت بڑا بوسٹر جسے سپر ہیوی بوسٹر کہتے ہیں جوڑا گیا تھا۔ تاہم اس وقت تجرباتی پرواز میں اس کے آدھے انجنوں کو اُن کی آدھی صلاحیت پر چلایا گیا تھا۔
اگر وعدے کے مطابق جمعرات کو سپیس ایکس نے اس راکٹ کو چھوڑنے کے لیے انجنوں کو 90 فیصد زور پر چلایا تھا تو اس حصے کو تقریباً 70 میگانیوٹن کے قریب طاقت دینی چاہیے تھی۔
اڑان بھرنے کے لیے یہ طاقت 60 اور 70 کی دہائی میں چاند پر بھیجے جانے والے خلائی جہاز سیٹرن فائیو سے دگنی ہے۔
سٹار شپ نے اگرچہ اپنا لانچ پیڈ تباہ نہیں کیا ہے لیکن بعدازاں جاری ہونے والی تصاویر میں یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ طاقتور اڑان نے لانچ پیڈ کے کنکریٹ کے فرش کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔
اس مشن کا منصوبہ یہ تھا کہ اس خلائی جہاز کو زمین کے ایک مکمل چکر پر بھیجنا تھا، جس کا اختتام ہوائی کے شمال میں سو کلومیٹر کے فاصلے پر بحر الکاہل میں ہونا تھا۔
اس بات کی کوئی توقع نہیں تھی کہ خلائی جہاز یا سپر ہیوی برآمد ہو جائے گا۔ تاہم، طویل مدتی یہ منصوبہ ہے کہ دونوں حصوں کو کامیابی سے زمین پر اتارا جائے ان میں ایندھن بھرا جائے اور بار بار لانچ کیا جائے۔
اگر یہ ممکن ہو جاتا ہے تو یہ بہت بڑا کارنامہ اور تبدیلی کا باعث ہو گا۔
سٹار شپ سو ٹن سے زیادہ وزن اٹھا کر مدار میں پرواز کرنے کی ممکنہ صلاحیت رکھتا ہے۔ اور اس تجربے میں کامیابی ملتی ہے تو خلائی سفر کے اخراجات کم ہو جائیں گے اور یہ ایک زبردست مستقبل کی راہ ہموار کرے گا۔
خلائی مشیر کیریسا برائس کرسٹینسن نے کہا کہ خلا بازی کی صنعت میں یقینی طور پر اس خلائی گاڑی کے ممکنہ خلل کے بارے میں بہت زیادہ توقعات ہیں۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تجارتی نقطہ نظر سے اس کی زیادہ صلاحیت اہم ہو سکتی ہے۔ ایک بہت بڑی خلائی گاڑی جسے انسان نے بنایا خلائی سیاحت کے ابھرنے کے لیے اہم ہو سکتا ہے۔ دوسرا عنصر خلائی گاڑی کا سستا ہونا ہے۔ اس کے دو اہم پہلو ہیں کہ آپ کے پاس ایک ایسی خلائی گاڑی ہے جس کی کیپاسٹی زیادہ اور ممکنہ طور پر قیمت بہت کم ہے۔‘
ایلون مسک ابتدائی طور پر سٹارشپ کو اپنی کمپنی کے برانڈ بینڈ انٹرنیٹ کے چھوٹے سیٹلائٹ چھوڑنے کے لیے استعمال کریں گے۔
اور جب سپیس ایکس کمپنی کے انجینیئروں کو اس خلائی گاڑی کی کارکردگی پر بھروسہ ہو جائے گا تو وہ لوگوں کو خلائی سفر کی اجازت دیں گے۔
اس حوالے سے پہلا مشن پہلے ہی طے ہو چکا ہے۔ اس کی کمانڈ ارب پتی امریکی بزنس مین اور لڑاکا طیارے کے پائلٹ جیرڈ آئزاک مین کریں گے۔ وہ پہلے ہی سپیس ایکس ڈریگن کیپسول میں خلا کا سفر کر چکے ہیں۔
چاند کے گرد پہلی پرواز جاپانی فیشن ارب پتی یوساکو میزوا کریں گے۔ وہ اپنے ڈیئر مون پروجیکٹ کے حصے کے طور پر آٹھ فنکاروں کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔
جبکہ امریکی خلائی ایجنسی، ناسا اپنے خلابازوں کو چاند کی سطح پر اتارنے کے لیے سٹار شپ کا ایک ورژن استعمال کرنا چاہتی ہے۔