اقتدار پر دو جنرلز کے درمیان جاری جھڑپوں نے سوڈان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے جب کہ افریقی ملک میں پیدا ہونے والے داخلی بحران کے اثرات اس کی سرحدوں سے باہر بھی جانے کا خدشہ ہے۔
سوڈان کی فوج کے متحارب گروپوں میں ہزاروں اہلکار ہیں اور دونوں گروپس کا کوئی نہ کوئی غیر ملکی حامی بھی ہے۔ معدنیات سے مالا مال ہونے کی وجہ سے غیر ملکی پابندیوں کے ذریعے بھی فریقین پر دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا۔
ان حالات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو سوڈان میں طول پکڑنے والے ایسے تنازع کے سارے اجزا موجود ہیں جو لبنان، شام اور ایتھوپیا کی طرح دہائیوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
سوڈان میں اقتدار کی منتقلی کے معاملے پر شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک سینکڑوں جانیں جاچکی ہیں۔ اس لڑائی سے سوڈان کی شہری آبادیوں میں لاکھوں لوگ یرغمال بن گئے ہیں جہاں انہیں ایک جانب گولیوں اور دھماکوں سے خود کو بچانا ہے اور ایک جانب لوٹ مار کرتے جتھے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
سوڈان کی سنگین ہوتی داخلی صورتِ حال اس کی سرحدوں کے باہر کس طرح اثر انداز ہوگی؟ یہ سوال اہمیت اختیار کرگیا ہے۔
لڑائی کے فریق کون ہیں؟
سوڈان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرھان اور ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایف ایف) کے سربراہ جنرل محمد حمدان دقلو حالیہ تنازع کے دو فریق ہیں۔ سوڈان کا اقتدار سنبھالنے کے لیے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہونے والے یہ جنرلز دو سال قبل ایک دوسرے کے اتحادی تھے اور انہوں نے مل کر اکتوبر 2021 میں تین دہائیوں تک سوڈان پر حکمرانی کرنے والے عمر البشیر کی اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔
موجودہ تنازع میں برتری حاصل کرنے والا جنرل ہی ممکنہ طور پر سوڈان کا اگلا صدر ہوگا جب کہ ہارنے والے فریق کو جلا وطنی، جیل یا موت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ سوڈان میں جاری جھڑپیں ایک طویل خانہ جنگی کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہیں اور ممکنہ طور پر اس کے نتیجے میں ملک عرب اور افریقی حصوں میں تقسیم بھی ہوسکتا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ٹفٹس یونیورسٹی سے وابستہ سوڈان کے امور پر گہری نظر رکھنے والے ایلکس ڈی وال کا کہنا ہے کہ حالیہ جھڑپیں ایک طویل خانہ جنگی کا پہلا مرحلہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر تنازع طول پکڑتا ہے تو اس میں علاقائی اور بین الاقوامی فریق بھی اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے شریک ہوتے چلے جائیں گے اور سوڈان میں ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار گروپس کو مدد فراہم کرنا شروع کردیں گے۔
ہمسایہ ممالک پر کیا اثر ہوگا؟
سوڈان رقبے کے اعتبار سے براعظم افریقہ کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ دریائے نیل کے ایک کنارے پر وسیع علاقہ سوڈان میں شامل ہے۔ نیل کے پانی میں سوڈان خطے کے دیگر بڑے ممالک ایتھوپیا اور مصر کا شریک ہے۔ پانی کی تقسیم پر ان ممالک کے تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے۔
مصر اپنی 10 کروڑ آبادی سے زائد آبادی کی ضروریات کے لیے نیل کے پانی پر انحصار کرتا ہے۔ جب کہ ایتھوپیا دریائے نیل پر ایک بڑے ڈیم کے منصوبے پر کام کررہا ہے جس پر مصر اور سوڈان دونوں کو تحفظات ہیں۔
مصر کا سوڈان کی فوج کے ساتھ قریبی تعلق ہے جو اسے ایتھوپیا کے خلاف اتحادی تصور کرتا ہے۔ اب تک قاہرہ نے اس تنازع میں کسی فریق کا ساتھ دینے کے بجائے جنگ بندی پر زور دیا ہے۔ البتہ اگر سوڈان کی فوج کو شکست ہوتی ہے تو مصر اس تنازع میں غیر جانب دار نہیں رہے گا۔
سوڈان کی سرحد دیگر پانچ ممالک سے ملتی ہے جن میں لیبیا، چاڈ، سینٹر افریقن ری پبلک، ایریٹیریا اور جنوبی سوڈان شامل ہے۔ جنوبی سوڈان 2011 میں سوڈان سے علیحدہ ہوا تھا۔ اس تقسیم کے نتیجے میں خرطوم کے 75 فی صد تیل کے ذخائر بھی جنوبی سوڈان کے پاس چلے گئے تھے۔ سوڈان کے تمام ہی ہمسایہ ممالک داخلی تنازعات کا شکار ہیں جہاں کئی مسلح گروپ سرگرم ہیں۔
بیرونی طاقتوں کا سوڈان میں کیا مفاد ہے؟
حالیہ کچھ برسوں میں عرب خلیجی ممالک نے افریقہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ متحدہ عرب امارت خلیج میں ایک فوجی قوت بن کر ابھر رہا ہے۔ اس نے مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی افریقہ میں اپنی موجودگی بڑھائی ہے اور اس کے سوڈان کی پیرا ملٹری فورس آر ایس ایف کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
آر ایس ایف نے یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کے مقابلے لیے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو مدد فراہم کرنے کے لیے ہزاروں اہل کار بھیجے تھے۔
روس طویل عرصے سے پورٹ سوڈان میں بحری اڈہ بنانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ بحیرہ احمر میں یہ بندرگاہ یورپ کے لیے جانے والی توانائی کی کھیپ کے راستوں پر انتہائی اہم مقام پر واقع ہے۔ روس یہاں ایسا بحری اڈہ قائم کرنا چاہتا ہے جس میں چار جہاز اور کم از کم 300 اہل کار رکھنے کی گنجائش ہو۔
روسی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والی روس کی ایک پرائیوٹ ملٹری کمپنی ’ویگنر گروپ‘ نے گزشتہ چند برسوں کے دوران افریقہ میں اپنے قدم جمائے ہیں اور یہ 2017 سے سوڈان میں بھی سرگرم ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین سوڈان میں ویگنر گروپ سے تعلق رکھنے والی دو کان کنی کی کمپنیوں پر اسمگلنگ کے الزامات کے تحت پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔
مغربی ممالک کیا کردار ادا کریں گے؟
سوڈان کو عالمی سطح پر 1990 کی دہائی میں اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی وجہ سے بدنامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد 2000 کی دہائی میں مغربی دارفور میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کی وجہ سے سوڈان کی عالمی تنہائی میں مزید اضافہ ہوا۔
سوڈان کی فوج اور عرب نواز جنجوید ملیشیا پر مقامی بغاوت کو کچلنے کے لیے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات تھے۔ عالمی فوجداری عدالت نے بعدازاں عمر البشیر کو نسل کشی کا مرتکب قرار دیا تھا۔
امریکہ نے 2020 میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر سوڈان کو دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والی ریاستوں کی فہرست سے نکال دیا تھا۔ تاہم 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد امریکہ نے کئی ارب ڈالر کے قرضے اور امداد روک دیے تھے۔ یوکرین جنگ کے آغاز اور عالمی معاشی بحران کی وجہ سے بھی سوڈان کی معیشت تیزی سے گراوٹ کا شکار ہے۔
کوئی تیسرا فریق لڑائی روک سکتا ہے؟
سوڈان کے بڑھتے ہوئے اقتصادی مسائل مغربی ممالک کو معاشی پابندیوں کے ذریعے فریقین کو پسپائی پر مجبور کرنے کا راستہ فراہم کرسکتے ہیں۔ لیکن قدرتی وسائل سے مالامال ملک کے متحارب فوجی گروپس معدنیات کی خریدوفروخت سے اپنے لیے مالی وسائل جمع کرسکتے ہیں۔
اقتدار کے لیے سوڈان کی فوج کے سربراہ عبدالفتاح البرھان کے مقابل جنرل دقلو دارفور میں اونٹوں کے گلہ بان رہے ہیں۔ ان کے پاس مویشیوں کے بڑے ریوڑ اور سونے کی کانیں ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یمن میں ایران نواز گروپوں کے خلاف افرادی قوت فراہم کرنے کے عوض انہیں خلیجی ممالک سے بھاری معاوضہ ملتا ہے۔
اس کے مقابلے میں سوڈان کی فوج ملکی معیشت پر مکمل گرفت رکھتی ہے۔ عمر البشیر کے دور میں اس کے مالی وسائل کئی گنا بڑھے۔ سوڈان کی فوج اپنے مقابل آر ایس ایف کو پس ماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے اجڈ جنگجوؤں کا گروہ سمجھتی ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ لڑائی کے لیے درکار وسائل بھی اس تنازع میں فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔ فوج اسمگلنگ کے راستوں اور سونے کی کانوں کا کنٹرول سنبھالنا چاہے گی۔ اس کے مقابلے میں پورٹ سوڈان سے خرطوم تک کے اہم تجارتی راستے آر ایس ایف کا ہدف ہوں گے۔
اس تنازع میں کئی ثالث ہوسکتے ہیں جن میں امریکہ، اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، مصر، خلیجی ممالک، دی افریقن یونین اور آٹھ ممالک پر مشتمل مشرقی افریقی بلاک شامل ہیں۔ لیکن مبصرین کے مطابق ان ثالثوں کے لیے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا جنگ سے کم پیچیدہ نہیں ہوگا۔