سائیں جی ایم سید کی شخصیت، فکر اور انقلابی کردار ۔ اصغر شاہ

390

سائیں جی ایم سید کی شخصیت، فکر اور انقلابی کردار؛

(سائیں جی ايم سيد کی 25-اپریل پر ہونے والی 28 ویں برسی کے مناسبت سے) 

تحریر: اصغر شاہ 

دی بلوچستان پوسٹ

سائیں جی ایم سید کا مکمل نام غلام مرتضیٰ  سید ہے۔  سائیں جی ایم سید 17 جنوری 1904ع میں اُس وقت سندھ کے دادو ضلع کے چھوٹے سے گائوں سٙن میں  سید محمد شاہ کے گھر میں پیدا ہوئے۔

ان کا تعلق مٹیاری سادات خاندان سے ہے۔  مٹیاری ساداتوں کی کئی شاخیں ہیں۔ سائیں جی ایم سید کے خاندان کا تعلق ان کی میین پوٹا شاخ سے ہے۔  جس شاخ میں مشہور بزرگ ہستی سخی ابراہیم شاہ کا نام آتا ہے۔ جن کے سندھ کے سما دور کے حکمران جام نظام الدین سے گہرے تعلقات تھے۔

سائیں جی ایم سید کی ساری زندگی بغاوتوں پر مشتمل رہی ہے۔  سائیں جی ایم سید جب پیدا ہوئے تو اُس وقت سارے برِصغیر پر انگریز سامراج کا قبضہ تھا۔ سائیں جی ایم سید بچپن سے ہی ہر اُس تحریک کا حصہ بنے جو انگریز راج کو چیلینج کرتی تھی۔

سائیں جی ایم سید مہاتما گاندھی سے اس وقت ملے تھے ، جب مہاتما گاندھی نے عدم تعاون کی تحریک شروع کی تھی۔  سائیں جی ایم سید کی مہاتما گاندھی سے یہ ملاقات سٙن ریلوے اسٹیشن (دادو) پر ہوئی تھی۔  جب مہاتما گاندھی انگریزوں کے خلاف عدم تعاون تحریک کی حمایت لینے کے لیئے سندھ کے دورے پر آئے تھے۔  اُس سے قبل برِصغیر میں خلافت تحریک عروج پر تھی۔  اس دوراں 1919ع میں خلافت تحریک کا ایک اجلاس مخدوم بلاول کی مزار(دادو) میں ہوا تھا ، جس میں سائیں جی ایم سید نے 15 برس کی صغیر عمر میں ایک بینچ پر چڑھ کر تقریر کی تھی۔ جب بیریسٹر غلام مصطفیٰ بھرگڑی  کی رہنمائی میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی تحریک شروع ہوئی تھی تو سائیں جی ایم سید اس تحریک کے مرکزی رہنما اور روح رواں رہے۔

سائیں جی ایم سید کی سیاست کا محور اور مرکز شروع سے لیکر سندھ اور سندھی قوم رہے ہیں۔  حالانکہ سائیں جی ایم سید کی پوری سیاست باغیانہ رہی ہے۔ پھر بھی سائیں جی ایم سید کی سیاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ ایک سندھ کے حقوق اور خودمختاری کی پارلیمانی سیاست اور دوسری انقلابی سیاست۔

سائیں جی ایم سید کی پارلیمانی سیاست کی شروعات اس وقت ہوئی جب وہ کراچی کے لوکل بورڈ کی الیکشن میں ڈسٹرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے۔  اس کے بعد جب 1936ع میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی ہوئی اور سندھ کی پہلی آئین ساز اسیمبلی بنی تو سائیں جی ایم سید کی سندھ اتحاد پارٹی اس الیکشن میں بھاری اکثریت سے جیت کر آئی اور سائیں جی ایم سید سندھ اسیمبلی کے رکن بنے۔ سائیں جی ایم سید کی پارٹی کی مدد سے انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما  اللہ بخش سومرو سندھ کے پہلے وزیراعظم بنے ۔

یہ وہ دور تھا جب 1940ع کی قرارداد پیش کی گئی تھی اور سائیں جی ایم سید نے اس قرارداد کی حمايت کی تھی۔ 1940کی قرارداد کی حمایت کی بنیاد یہ تھی کہ اس قرارداد میں سندھ کو ایک خودمختار  ریاست کی حیثیت دی گئی تھی۔  لیکن جب پاکستان بنا تو سندھ کو خودمختار ریاست کے بجائے صوبے کا درجہ دیا گیا  اور 1954ع میں مغربی پاکستان کو ون یونٹ قرار دیکر سندھ کی صوبائی حیثیت بھی ختم کر دی گئی۔   جس کے خلاف سائیں جی ایم سید سمیت تمام محبِ وطن سیاستدانوں نے مزاحمت کی اور اس فیصلے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ” ہم نے آپ سے اپنی ریاست مانگی تھی لیکن آپ نے ہمیں صوبہ کا درجہ دے دیا ۔  اور اب ہماری صوبائی حیثیت بھی ختم کردی گئی ہے ۔ اس لیئے ہم تمہارے فیصلے کو رد کرتے ہیں۔  ”

1970ع تک سائیں جی ایم سید سمجھتے تھے کہ پارلیامانی سیاست یا آئینی اصلاحات کے ذریعے سندھ کے حقوق لیئے جا سکتے ہیں۔  لیکن جب 1970ع میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ کی جانب سے اکثریت سے جیت کر آنے کے باوجود پنجابی اسٹیبلشمینٹ نے انہیں اقتدار نہیں دیا اور پاکستانی فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کا قتلِ عام کیا اور لاکھوں بنگالی عورتوں کی عصمت دری کی ،  تو اس واقعے کے بعد سائیں جی ایم سید نے پاکستانی پارلیامانی سیاست کو ہمیشہ کے لیئے الوداع کیا اور سائیں جی ایم سید نے واضح کیا کہ “اسیمبلی ایوانوں میں بیٹھ کر نا ہی ملک کا نظام تبدیل کیا جا سکتا ہے اور نا ہی آئینی طریقوں سے اپنے قومی حقوق حاصل کیئے جا سکتے ہیں ۔  اس لیئے سندھ کی بقا کے لیئے پاکستان کا فنا ہونا لازمی ہے۔  ”

سائیں جی ایم سید اپنے کتاب “سندھودیش کیوں اور کِس لیئے ؟ ” میں لکھتے ہیں کہ “سندھ ایک مُلک ہے،  سندھی ایک قوم ہے۔  اور  بحیثیت قوم کے آزادی ہمارا بنیادی حق ہے”۔  اس کے آگے سائیں جی ایم سید لکھتے ہیں کہ “سندھ وطن کُن فَیَکُون سے موجود ہے اور اس کے ساتھ ہماری محبت بھی کُن فَیَکُون سے ہے۔  انسان کا سونا اور جاگنا زندگی کی علامتیں ہوتی ہیں۔  جس طرح انسان سوتے ہیں اور جاگتے ہیں، اسی طرح قومیں بھی کبھی غلام ہوتی ہیں اور کبھی آزاد ہوتی ہیں ۔ جس طرح نیند مستقل نہیں ہوتی ، اسی طرح غلامی بھی مستقل نہیں ہوتی۔” ” برِصغیر کی پوری تاریخ میں پاکستان کے نام سے کبھی بھی کوئی نا ملک رہا ہے اور نا ہی کوئی پاکستانی قوم۔ جن چار ریاستوں کو ملا کر پاکستان بنایا گیا وہ اپنی علحدہ تاریخ ، جغرافیہ ،  زبان ، کلچر اور سیاسی و اقتصادی مفادات کے بنا پر علحدہ قومیں اور ملک رہے ہیں”۔

یاد رکھنا چاہیے کہ انقلاب کبھی پُرامن نہیں ہوتے۔  تبدیلی یا ووٹ کے ذریعے آتی ہے یا گولی کے ذریعے آتی ہے۔  سائیں جی ایم سید ،  بنگلادیش کے تجربے کے بعد ووٹ کے ذریعے تبدیلی کو رد کر چکے تھے۔  جب ووٹ والا آپشن ختم ہوجاتا ہے تو اس کے بعد  صرف گولی یا مُزاحمت والا آپشن یا طریقہ بچتا ہے۔  جو جماعتیں یا فرد گولی یا مُزاحمت والے آپشن کو رد یا خارج کرنے کی باتیں کرتے ہیں، انہوں نے یا تو فکرِ جی ایم سید کو سمجھا ہی نہیں ہے یا پھر آزادی یا انقلاب چاہتے ہی نہیں ہیں۔

سائیں جی ایم سید سمجھتے تھے کہ انقلاب پُرامن نہیں ہوتے ۔ دشمن سے جنگ کرنے کے لیئے ہتھیار یا تلوار اٹھانی پڑتی ہے ۔ اس لیئے سائیں جی ایم سید نے اپنے کتاب ” سندھ کا سورما ” میں جتنے بھی ہیروز کا ذکر کیا ہے۔  ان میں سے ایک بھی عدم تشدد کا حامی نہیں تھا۔  وہ سب تلوار ہاتھ میں اٹھاکر جنگ کے میدان میں لڑے تھے۔

سائیں جی ایم سید انقلاب میں گولی کے خلاف ہوتے تو کبھی بھی انہیں ہیروز قرار نہیں دیتے۔   مہاراجا داہر سے لیکر شاہ عنایت شہید تک سب کو اپنا قومی ہیروز قرار دینے سے ثابت ہوتا ہے کہ سائیں جی ایم سید وطن کی آزادی اور دفاع کے لیئے لڑی جانے والی جنگ کو دُرست اور جائز سمجھتے تھے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارا دشمن کبھی بھی عدم تشدد کا حامی نہیں رہا۔  ہمارے وطن کے اوپر جتنے بھی بیرونی حملہ آور آئے ہیں ، وہ سب طاقت اور تلوار کے زور پر ہمارے اوپر قبضہ کرتے رہے ہیں اور ہماری نسل کُشی کرتے رہے ہیں ۔ آج بھی پنجاب سامراج ہمارے اوپر بندوق کے زور پر قبضہ کر کے بیٹھا ہوا ہے۔ ہمارا سیاسی معاشی قتلِ عام اور نسل کُشی کر رہا ہے ۔ ہمیں اقلیت میں تبدیل کر رہا ہے۔ ہمارے نہتے لوگوں کو اٹھاکر گرفتار اور شہید کر رہا ہے۔ چائنا سے ملکر ہمارے قومی وجود ،بقا ،تشخص  ، زندھ رہنے کے ذرایع،  جغرافیہ اور ڈیموگرافی کو تہس نہس کرکے تباہ کر رہا ہے۔

اس لیئے  اپنے وطن کی آزادی ، بقا اور دفاع کے لیئے ہمیں مہاراجا داہر ، دودو سومرو،  دولہہ دریا خان ، مخدوم بلاول اور شاہ عنایت شہید کی طرح ہاتھوں میں ہتھیار اٹھاکر مزاحمتی راستہ اپنانا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں