اقوام متحدہ نے ان رپورٹس کی تردید کی ہے کہ اگر افغان خواتین کو تعلیم حاصل کرنے یا کام کرنے کی اجازت دینے سے متعلق طالبان کو رضامند کرنے کی کوششیں کامیاب نہ ہوئیں تو اقوام متحدہ افغانستان سے مکمل انخلا کا ارادہ رکھتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان سٹیفن ڈوجیریک نے 18 اپریل کو دی گئی ایک پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ ’میرے خیال میں ہم (اقوام متحدہ) نے اس ضمن میں جو بات کی یا تو اس کو غلط سمجھا گیا ہے یا اس کی غلط تشریح کی گئی۔‘
خیال رہے کہ برطانوی اخبار دی گارڈیئن کی جانب سے گذشتہ روز ایک خبر شائع کی گئی تھی جس میں اقوامِ متحدہ کے حکام کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ طالبان کی جانب سے افغان خواتین کو ادارے کے لیے کام کرنے کی اجازت نہ دینے کے حوالے سے ناکامی کی صورت میں افغانستان سے نکلنے کے بارے میں ’انتہائی مشکل فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان سٹیفن ڈوجیریک نے 18 اپریل کو دی گئی ایک پریس بریفنگ میں اس حوالے سے وضاحت کی ہے۔
یاد رہے کہ مارچ میں طالبان نے ایک حکم نامے کے تحت افغان خواتین کو اقوام متحدہ میں کام کرنے سے روک دیا تھا۔ اس وقت اقوام متحدہ نے طالبان کے اس حکم نامے کو ‘ناقابل قبول اور ناقابل فہم’ قرار دیا ہے۔
ان سے سوال کیا گیا تھا کہ ’دی گارڈیئن‘ کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ نے مئی 2023 میں افغانستان سے مکمل انخلا کی دھمکی دی ہے، کیا آپ اس ضمن میں وضاحت پیش کر سکتے ہیں؟
اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہم افغانستان میں موجود رہیں گے۔ ہم افغانستان کے لوگوں کے لیے جو کچھ بھی کرسکتے ہیں وہ کرنے کے لیے پرُعزم ہیں۔
’جیسا کہ آپ جانتے ہیں آئندہ ماہ پانچ مئی کو اس معاملے پر ایک ریویو (جائزہ اجلاس) بھی ہے، میں پُرزور انداز میں کہوں گا کہ ہم افغانستان میں موجود ہیں، ہم بدترین دور میں بھی یہاں موجود رہے ہیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ افغان شہریوں تک پہنچنے کے لیے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
تاہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان سٹیفن ڈوجیریک کی ابتدائی وضاحت کے بعد اُن سے دوبارہ سوال کیا گیا کہ افغانستان کے حوالے سے جائزہ اجلاس ہونے جا رہا ہے جس سے ہم آگاہ ہیں، مگر کیا افغانستان سے مکمل انخلا کا آپشن موجود ہے؟ یا یہ تجویز زیر غور آئی ہے؟
اس پر ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ اس بابت آگاہ نہیں ہیں اور جلد ہی معلومات لے کر فراہم کریں گی۔
خیال رہے کہ سنہ 2021 میں اقتدار پر قبضے کے بعد سے طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم اور انھیں نوکری کرنے کی اجازت سے متعلق سخت گیر رویہ اپنایا گیا ہے۔
خواتین کارکن زمینی امدادی کارروائیوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، خاص طور پر ضرورت مند دیگر خواتین کی نشاندہی میں۔ اقوام متحدہ افغانستان میں 23 ملین افراد تک انسانی امداد پہنچانے کے لیے کام کر رہا ہے، جو شدید معاشی اور انسانی بحران کا شکار ہے۔ غیر ملکی خواتین کارکنوں کو اس پابندی سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔
طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے سے روک دیا گیا ہے۔ خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے لباس پہنیں جو صرف ان کی آنکھوں کو ظاہر کرے، اور اگر وہ 72 کلومیٹر (48 میل) سے زیادہ سفر کر رہی ہیں تو ان کے ساتھ ایک مرد رشتہ دار ہونا ضروری ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں خواتین کے پارکوں، جم اور سوئمنگ پولز میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
طالبان نے خواتین کی تعلیم کے حامیوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا ہے۔ گزشتہ ماہ خواتین کی تعلیم کے لیے سرگرم معروف افغان کارکن مطیع اللہ ویسا کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر گرفتار کیا گیا تھا۔
فروری میں طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی کے سخت ناقد پروفیسر اسماعیل مشعل کو بھی کابل میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ مفت کتابیں تقسیم کر رہے تھے۔