بلوچستان میں فروری کے مہینے میں کئی خبریں سرخیوں میں رہیں جہاں کراچی کے سینٹر جیل کے سامنے عبدالحفیظ زہری کی جبری گمشدگی کی کوشش سمیت کوئٹہ سے بلوچ خواتین کو جبری لاپتہ کرنے کے واقعات پیش آئیں جبکہ امن و امان کے حوالے سے بلوچستان میں عدم استحکام برقرار رہا۔
گذشتہ مہینے نمایاں خبروں پر ایک نظر:
3 فروری کو پاکستان کے شہر کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج محمد یاسین قادری نے عبدالحفیظ ولد محمد رمضان پر لگائے گئے الزامات ثابت نہ ہونے پر انہیں باعزت بری کردیا۔
عبدالحفیظ کراچی سنڑل جیل میں قید تھے، جب انکے خاندان کے افراد عدالتی حکم نامہ لے کر جیل سے اپنے بھائی کو تحویل میں لے کر باہر نکلے تو ایک سفید ویگو گاڑی نے ان کا راستہ روک لیا اور عبدالحفیظ کو اپنے ساتھ لیجانے کی کوشش کی۔
جس کے بعد انکی بہنیں اور دیگر خاندان کے افراد نے سخت مزاحمت کی۔ مسلح افراد نے ان پر گولیاں چلائیں، خواتین کو لاتیں ماری گئیں، گالیاں دیں اور بال کھینچے لیکن بی بی فاطمہ نے اپنے گمشدہ، گرفتار بھائی کو دوبارہ لاپتہ ہونے نہیں دیا۔
مسلح افراد نے مزاحمت دیکھ کر بھاگنے سے پہلے عبدالحفیظ کو جان سے مارنے کی کوشش کرتے ہوئے شدید زخمی کردیا۔
عبدالحفیظ زہری کی بہن فاطمہ زہری کے مطابق پاکستانی خفیہ ادارے ابتک انکے تعاقب میں ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی عدلیہ سے تحفظ کی اپیل کی ہے۔
5فروری کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پاکستانی فورسز کے چیک پوسٹ کے قریب زوردار دھماکہ ہوا تھا –
دھماکہ کوئٹہ میں فورسز کینٹ کے قریب موسیٰ چیک پوسٹ پر ہوا، جب کوئٹہ میں پاکستان سُپر لیگ “پی ایس ایل” ایڈیشن 8 کا ایک نمائشی میچ بھی کھیلا جارہا تھا۔ ٹی ٹی پی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا۔
فروری کے مہینے میں گشکوری ٹاؤن، ناشناس کالونی کوئٹہ سے سرچ آپریشن کے دوران پاکستانی فورسز نے بلوچ خاتون رشیدہ بی بی ، اسکی شوہر رحیم زہری اور ساس کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا تھا جس کے بعد محمد رحیم کی والدہ اور بچے بازیاب ہوئے بعد ازاں رشیدہ زہری بھی بازیاب ہوئے تاہم محمد رحیم زہری کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے-
یاد رہے بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا لانگو نے رشیدہ زہری اور بچوں کی گمشدگی سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا تاہم بازیابی کے بعد رشیدہ زہری نے کہا تھا کہ انہیں شوہر کے ساتھ رات کو گھر میں پاکستانی فورسز نے اغوا کیا تھا۔
فروری کے مہینے میں بلوچستان اکیڈمی تربت کے زیر اہتمام تین روزہ “عطاءشاد ادبی میلہ” کا انعقاد کیا گیا اس تقریب کے آخری دن کے اختتامی سیشن کے مہمان خاص صوبائی مشیر برائے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ لالہ رشید دشتی، ڈپٹی کمشنر کیچ میجر ر بشیر احمد بڑیچ،بلوچستان اکیڈمی تربت کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالغفور شاد کے علاوہ عطاءشاد بلوچ کے فرزند حمل شاد بھی وہاں پر موجودتھے۔
اس دوران بلوچستان اکیڈمی تربت کی جانب سے ادبی میلے میں مختلف موضوعات پر کتابوں کی بھی نمائش کی گئی تھی ۔ بلوچستان اکیڈمی کے ارکان کی جانب سے بتایا جارہا ہے کہ تین روزہ میلے میں تقریباً 35 لاکھ روپے مالیت کی کتابیں فروخت کی گئی ہیں۔
فروری کے مہینے میں آواران کے رہائشی داد بخش مسکان کو گیشکور کے فوجی کیمپ میں پاکستانی فورسز نے مسلسل چار دن تک تشدد کا نشانہ بنایا ۔
بی این ایم سے منسلک انسانی حقوق کی تنظیم پانک کے مطابق انہیں فوجی کمیپ میں جانے کے بعد لاپتہ کیا گیا تھا اور بعد ازاں وہ دوپہر کو مردہ حالات میں پائے گئے تھے۔
مقامی لوگوں کے مطابق وہ گھر واپس آتے ہوئے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تھے۔
فروری کے مہینے میں بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے ایک اور بلوچ خاتون ماھل بلوچ کی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی رپورٹ ہوئی، جس کے بعد شدید عوامی ردعمل کے بعد انہیںعدالت میں پیش کرکے سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے، ماھل بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف بلوچستان، کراچی، اور اسلام آباد میں احتجاج اور مظاہرے کئے گئے۔
فروری کے مہینے میں بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ سے تین لاشیں برآمد ہوئی تھی، پولیس کے مطابق لاشیں ایک کنویں کے اندر موجود تھی جو دو مرد اور ایک عورت کی ہیں۔
لاشیں ممکنہ طور پر بلوچستان کے ایک وزیر عبدالرحمان کھیتران کے مبینہ نجی جیل میں قید خان محمد مری کی دو بچوں اور امیرہ بی بی کی تھی ، جنہوں نے نجی جیل میں بند گران ناز نامی لاتوں کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا تک رسائی دی تھی ۔
فروری کے آخری دنوں خضدار شہر میں جھالاوان کمپلیکس کے قریب ایک مقناطیسی بم حملے میں سپرٹنڈنٹ آف پولیس ریٹائرڈ پاکستانی نیوی اہلکار فہد خان کے قافلے میں شامل گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، دھماکے میں پولیس دو اہلکار عبدالسلام اور محمد دین ہلاک اور مزید ایک اہلکار زخمی ہوگیا جبکہ انکی گاڑی مکمل تباہ ہوگئی تھی ۔
گذشتہ مہینے پاکستانی سیکورٹی حکام نے بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے ممکنہ حملوں کے پیش نظر تھریٹ الرٹ جاری کیا، تھریٹ الرٹ میں کہا گیا تھا کہ “بی ایل اے” بلوچستان کے علاقے خاران اور نوشکی میں سیکورٹی فورسز وخفیہ اداروں کے دفاتر کو نشانہ بناسکتی ہے–
تھریٹ الرٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ حملہ بلوچ لبریشن آرمی مجید برگیڈ کے گذشتہ سال فروری میں ہونے والے حملے “آپریشن گنجل” کا سیکوئل ہوسکتا ہے، گذشتہ سال 2 فروری کو بلوچ لبریشن آرمی مجید بریگیڈ کے 16 فدائی حملہ آورں نے نوشکی اور پنجگور ایف سی کے دو ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بنایا تھا–
بلوچ لبریشن آرمی کے حملوں کے پیش نظر بلوچستان میں سیکورٹی حکام کو الرٹ رہنے اور ایف سی کیمپوں کے مرکزی گذر گاہوں اور دروازوں پر سیکورٹی سخت کرنے اور شہری چیکنگ کو مزید سخت کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں جبکہ پولیس اور دیگر سیکورٹی ادارواں کو بھی الرٹ رہنے کا کہا گیا ہے–