پاکستان میں 40 فیصد ادویات ساز کمپنیاں بند ہونے کا خدشہ

144

پاکستان میں ادویات سازی کی صنعت نے انتباہ جاری کر دیا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی، درآمدی رکاوٹوں اور بڑھتی ہوئی افراط زر کی وجہ سے پیدا ہونے والی ناقابل برداشت پیداواری لاگت درجنوں کمپنیوں کو اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 1.1 بلین ڈالر یا 1.03 بلین یورو کے اہم بیل آؤٹ فنڈز کے اجراء میں تاخیر کے سبب پاکستانمیں دوا سازی کا بحران بڑھ رہا ہے۔

حالیہ مہینوں میں اس جنوبی ایشیائی ملک میں ادویات کی پیداوار میں 21.5 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خام مال کی درآمد میں سہولت فراہم کرنے والے کمرشل بینکوں کی طرف سے گارنٹی فراہم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید فاروق بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بینکوں نے درآمدات کی ادائیگیوں کی ضمانت کے طور پر اس سال جنوری میں لیٹر آف کریڈٹ (LCs) کا اجراء دوبارہ شروع کیا تھا لیکن زرمبادلہ کے کم ذخائر کی روشنی میں، بینکوں نے بمشکل 50 فیصد درخواستیں ہی منظور کیں۔ واضح رہے کہ ان درحواستوں کی منظوری، صرف ایک مقررہ مدت کے اندر ادائیگی کی ضمانت دینے والے سامان کے درآمد کنندگان کو ہی جاری کی جاتی ہیں۔

گزشتہ ماہ، آئی ایم ایف کے مذاکرات کاروں کی ایک ٹیم نے اسلام آباد میں پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے بات چیت کی تھی، لیکن وہ کوئی معاہدہ کیے بغیر امریکہ واپس چلی گئی تھی۔

پاکستان میں تیار کی جانے والی زیادہ تر ادویات اور دیگر دوا سازی کی مصنوعات میں درآمد شدہ خام مال استعمال ہوتا ہے، جس کی قیمتیں گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی کی وجہ سے بڑھی ہیں۔

ادویات کی قیمتوں کا تعین ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) کی سفارش پر وفاقی حکومت کرتی ہے۔ حکام ایل سی کے مسئلے کو ملک کے خطرناک حد تک کم زرمبادلہ کے ذخائر سے جوڑتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ یہ اس وقت تک برقرار رہے گا، جب تک کہ آئی ایم ایف 1.1 بلین ڈالر کی بیل آؤٹ قسط جاری نہیں کرتا۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی انتظامیہ عوامی ردعمل کے خوف سے ادویات کی قیمتوں میں 38.5 فیصد اضافے کی درخواست کو قبول نہیں کر رہی ہے کیونکہ مہنگائی پہلے ہی 31.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید فاروق بخاری کا کہنا ہے کہ کچھ دوا سازی کی مصنوعات کی پیداوار ناقابل عمل ہو گئی ہے کیونکہ امریکی ڈالر کی قیمت چند ہفتوں میں 230 سے بڑھ کر 270 پاکستانی روپے تک پہنچ گئی ہے، جب کہ ایندھن کے نرخ اور یوٹیلیٹی چارجز بھی بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا،”چار فارماسیوٹیکل ملٹی نیشنل کمپنیاںپہلے ہی ملک چھوڑ چکی ہیں اور ایک اور فورس میجر کے لیے چلی گئی ہے، جب کہ 40 مقامی کمپنیوں نے باضابطہ طور پر بتایا ہے کہ وہ پیداوار کی ناقابل برداشت لاگت کی وجہ سے بند ہونے کی طرف جا رہی ہیں۔‘‘

دوا ساز کمپنیوں نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ مارکیٹ میں ڈالر کی قلت کی وجہ سے ادائیگیوں میں تاخیر کے سبب چین، یورپ اور امریکہ سے درآمد کیے جانے والے خام مال اور طبی آلات لے جانے والے کئی جہاز اور کنٹینرز بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم نے دو ماہ قبل دوا سازی کی صنعت کے مسائل کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی لیکن اس کمیٹی نے ابھی تک ادویات بنانے والے اداروں سے ملاقات نہیں کی ہے۔ دریں اثنا گہرے ہوتے بحران سے مریضوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ لاکھوں ملازمتوں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ اس وقت پاکستان بھر میں ادویات کی قلت پیدا ہونا شروع ہو چکی ہے۔

‘پاکستان ڈرگ لائیرز فورم‘ کے چیئرمین محمد نور مہر نے نشاندہی کی ہے کہ اہم لائف سیونگ ادویات میں تقریباً 10 فیصد کی کمی ہو چکی ہے۔ انہوں نے مارکیٹ میں ذیابیطس، دل، گردوں اور دمہ کی ادویات کی عدم دستیابی کا بھی دعویٰ کیا اور کہا کہ کچھ درآمدی ادویات اور خام مال بندرگاہوں پر کلیئرنس کے منتظر ہیں۔

پاکستانی حکومت پولی کلینک کے ڈاکٹروں نے، جو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا دوسرا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال ہے، ادویات کی قلت کی تصدیق کی اور کہا کہ ان میں کیٹاکونزول (فنگل انفیکشن)، رائزیک انجیکشن (گیسٹرو ایسوفیگل مسائل)، ویٹا 6 (تپ دق)، ٹریوامینٹ (ذیابیطس) کے خلاف استعمال ہونے والی ادویات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خون کی کمی اور اعصابی نقص کے خلاف درکار انجیکشن اور خون پتلا کرنے والی دوا بھی دستیاب نہیں ہے۔ یہ وہ بنیادی ضرورت کی حامل ادویات ہیں، جن کی عدم دستیابی کی وجہ سے سرجری یا آپریشن نہیں کیا جا سکتا۔