جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 4990 ویں روز جاری رہا۔ اس موقع پر مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے مرد اور خواتین سیاسی اور سماجی کارکنان نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاستی اوچھے ہتھکنڈے بے نقاب ہو چکے ہیں، ایک نہتی اور بیگناہ بلوچ لڑکی ماھل بلوچ گزشتہ ایک مہینے سے اوپر ریاستی زندان میں جبر سہہ رہی ہے۔ ان پہ اس دوران کس طرح کا تشدد کیا جا رہا ہے ہم اس کا انداز بھی لگا سکتے جس طرح یہ ریاست پچھلے ادوار میں کرتا آرہا ہے –
انہوں نے کہا کہ آج ماھل بلوچ سے بالجبر ایک اسکرپٹڈ اعترافی بیان ریکارڈ کرائی گئی، جو ریاستی اداروں کی بزدلی کا واضح ثبوت ہے، ہم نے ماھل بلوچ کی فیملی کے ساتھ گزشتہ دنوں پریس کانفرنس کیا تھا جس میں انکی فیملی کہہ چکی ہے کہ ان پہ ریاستی اداروں کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے، ماھل بلوچ کو تین دفعہ مسلسل جسمانی ریمانڈ پہ لیا گیا، کورٹس سے کچھ ثابت نا ہونے پر سی ٹی ڈی جھوٹ کا سہارا لے رہا ہے اور ان سے زبردستی اعتراف کروا رہی ہے جو ریاستی جبر کے زمرے میں آتا ہے –
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ریاستی جبر کے خلاف لوگوں کو آواز اٹھانے سے روکنے کیلئے ریاستی ادارے مختلف حربے استعمال کرتے آ رہے ہیں، لوگوں کو جبری لاپتہ کرنا انکو مار کر انکی لاشیں ویرانوں میں پھینکنا انکے اھل خانوں کو زدکوب کرنا انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا ریاست ہماری تیرہ سالوں کی تسلسل جاری پر امن جدوجہد سے پریشان ہو گئے ہیں اسی لیے ہمارے نام لے رہے ہیں حالانکہ ہماری جدوجہد پر امن ہے جمہوری ہے اور روز روشن کی طرح عیاں ہے، ریاست اپنے حواریوں اور پارلیمنٹ پرستوں کے ذریعے بلوچ پر امن جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ جدوجہد ہزاروں جبری لاپتہ افراد اور شہداء کی عظیم جدوجہد ہے اسے ختم کرنا نا ممکن ہے –