بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 4986 ویں روز کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جاری رہا۔
اس موقع پر بی ایس او کے سابقہ زونل صدر شکور بلوچ ، سلطان بلوچ ، قاضی احمد بلوچ اور دیگر لوگوں نے آکر لواحقین سے اظہار یکجتی کی ۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ طاقت پر انحصار ریاستی پالیسی کا اس لئے نمایاں خاصہ رہا ہے کہ بلوچ قوم نو آبادیاتی دور سیاسی ثقافتی یلغار سے مغلوب ہونے کی بجائے اپنی متوازی سیاست اور ثقافت کے ساتھ زندہ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ قومی سیاست و ثقافت کے مراکز ریاستی ادارے نہیں بلکہ بلوچ قوم کے دل و دماغ ہیں جن کا خاتمہ بلوچ قوم کے خاتمے سے ہی ممکن ہے ۔ اس لئے ریاستی طاقت کے استعمال میں بلوچ نسل کشی کا رنگ غالب نظر آیا ۔ یہ سلسلہ ابھی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ اس کا درست حل بین الاقوامی اور تاریخی حقائق کی روشنی میں کسی عالمی فورم کے ذریعے سے ہی ممکن ہے جس کے لئے اقوام متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی فورمز موجود ہیں لیکن بالا دست قوتوں کی یہ یقین ہے کہ ایسی صورت میں وہ اپنا تسلط قائم نہیں رکھ سکیں گی اور بلوچ قوم کا جدا گانہ تشخص بحال کرنا پڑے گا۔
دریں اثنا تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ سے خضدار سے لاپتہ لیاقت زہری کے اہلخانہ نے ملاقات کی ۔
انہوں نے کہا کہ لیاقت زہری کو 9 جون 2021 میں انکے والد عبدالرحمن کے سامنے سے ایف سی کے اہلکاروں نے خضدار سے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کیا اور انہیں لیاقت کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کی جارہی ہے جس کی وجہ سے انکا خاندان شدید ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہے ۔
انہوں نے گزارش کی کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز لیاقت زہری کی بازیابی میں کردار ادا کرے۔
نصراللہ بلوچ نے انہیں یقین دلایا کہ جس طرح تنظیم لیاقت زہری کی کیس کو حکومت اور کمیشن کو فراہم کیا اور ایف آئی آر کےاندارج میں کردار ادا کیا اسطرح ملکی قوانین کے تحت آگے بھی ہر فورم پر لیاقت زہری کی باحفاظت بازیابی لیے آواز اٹھائینگے۔
نصراللہ بلوچ نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ لاپتہ لیاقت زہری کی باحفاظت بازیابی میں اپنا کردار ادا کرے اگر لیاقت زہری پر الزام ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے بے قصور ہے تو فوری پر رہا کرکے خاندان کو ذہنی کرب و اذیت سے نجات دلائی جائے۔