فتح؛ عمل کا پیکر
تحریر: ناصر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جس طرح روشنی سے اندھیرے کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جسطرح دھوپ سے سردی یا اٹھنے سے نیند کا خاتمہ ہوتا ہے۔ بالکل اُسی طرح مزاحمت سے جبر ظلم اور غلامی بھی اختتام پزیر ہوتا ہے۔
جب قومیں غلام ہوتی ہیں اور اُن پر قبضہ کیا جاتا ہے تو قبضہ گیر سب سے پہلے اُن کو اپنے قابو میں رکھنے کیلئے اُن کے نوجوانوں کو مختلف راستوں میں ورغلا کر مصروف کرتا ہے تاکہ کوئی اپنے غلام ہونے کے بارے میں جاننے کی بھی کوشش نہ کرے اور اپنی اس قومی غلامی کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔اس کیلئے دشمن کئی شاطر ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ سب سے پہلے وہ غلام قوم کی معیشت یعنی ذریعہ آمدن کو بند کرکے ان کو معاشی حوالے سے تباہ کرتا ہے وہ اس لیئے کے وہ ایک ایسا منصوبہ بندی کرتی ہے جس سے ترقی کا نام دے کر ایک ایسے زندگی کی خیال میں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسے خوابوں میں جنتوں کا قصہ کرکے ایک نئی دنیا کی سوچ ڈھال کر دیوانہ کرتا ہے۔ جسے ماڈرن لائیف کہتے ہیں۔ وہ غلام اُس ماڈرن لائیف کے پیچھے اتنا ذلیل ہوتے ہیں کہ وہ اپنے معیشت کے ذرائع یا اور زندگی گزارنے کے طور طریقے ہیں ان سے بدزن ہوتے ہیں اور کچھ عرصہ خوابوں کی دنیا میں رہ کر کسی لیلا کا قیس بن جاتے ہیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد جب اُنکے ہاتھ سے اپنی ہر چیز کھو جاتی ہے یعنی کاروبار روایات اپنے سرزمین سے محبت قوم پرستی اور قومی محبت اور وہ کنگال ہوتے ہیں۔ جب وہ لیلا کی محبت کو ہارے ہوئے قیس سے مجنوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ مجنوں اپنے لیلا یعنی ماڈرن لائیف کو بنانے اٹھتے ہیں اور بدتہذیب ہو کر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ تو دشمن اپنا دوسرے ہتھیار کا استعمال کرکے کسی کو لائیف جاب کسی کو بیس سال جاب کسی کو سمگلر کسی کو منشیات فروش کسی کو میر سردار کسی کو سیاست کا استاد غرض ہر ایک کو اپنی زندگی میں مصروف کرکے اپنا غلام بناکر تلوے چٹواتا ہے۔ جس سے قبائلیت کا نظام بھی سر اٹھنے لگتا ہے۔ آپسی جنگوں میں اپنے ہی بھائیوں کو مار کر دشمن کو خوش کرنے اور چند پیسوں کی لالچ میں خود کا وجود خود ہی نیست و نابود کرتے ہیں جس سے چلاک دشمن خود کو فتح یاب سمجھتا ہے۔
لیکن اتنے میں پہلے چند وطن دوست قوم پرست نوجوان جو قبضہ گیر کے اس کھیل کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور خاموشی سے غلامی کے خلاف نوجوانوں کو نشے سے ہوش میں لانے کی جُہد کررہے ہوتے ہیں اور اِس غلیظ غلامی کا حساس دلا رہے ہوتے ہیں۔ جب چال باز دشمن کو معلوم ہوتا ہے کہ اُسکے ہی چال پر بھی ایک چال چل رہی ہے۔ جب خطرہ اپنے اوپر دیکھ کر ڈر سے تیز خرگوش کی مانند بدحواس ہو کر اپنے چھپنے کی راز خود ہی فاش کرتا ہے۔
جس سے ہر زی شعور انسان کو معلوم ہوتا ہے اور اُن جہد کاروں کا ساتھ دینے کیلئے یکے بعد دیگر اُٹھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ دشمن اپنے ہی چالوں سے بدزن ہوکر اپنا زور آزما کر قوم کے ایک بڑے حصے سے جنگ لڑکر لاکھوں عورتوں بچوں نوجوانوں بوڑھوں پر ظلم ڈھا کر طرح طرح کی موت سے شہید کرتا ہے اور دشمن انکے گاؤں کے گاؤں شہروں کے شہر جلا کر راکھ کرتا ہے جس سے ہزاروں لوگوں کیلئے ایک ہی راستہ چھوڑ دیتا ہے جسے گوریلا جنگ کہتے ہیں اور حقیقت میں یہی راستہ اس کیلئے خطرناک بن اسے توڑ دیتا ہے۔
بلوچستان کی کہانی بھی کچھ اسی طرح ہے سنیکڑوں نوجوانوں نے اپنے بقاء کو خطرے میں سمجھ کر اپنی قومی آزادی کیلئے دشمن سے جنگ کیلئے پہاڑوں کی زندگی گزارنا شروع کیا۔
اُن میں سے ایک شخصیت شہید محمد فتح عرف شہید چیئرمین ایک بہادر دلیر قومیت کے پھل کو آبیاری کرنے والا بلوچ سماج کی یکجہتی کیلئے عظیم قربانی دینے والا عظیم شخصیت اور بہادر جنگجو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جس نے قوم کی اس مشکل وقت میں بلوچ قومی بقاء کو خطرے میں محسوس کیا اور قوم کو بے یارو مدگار پاکر اُٹھ کھڑا ہوا۔
وہ جب پہاڑوں میں گوریلا جہد کرنے کیلئے اپنے اُن سرفروش دوستوں سے ملے جو لمبے عرصے سے قبضہ گیر دشمن سے بہادری کے ساتھ خون خوار جنگ لڑرہے تھے۔ تو اُنکے چہرے پر شجاعت و بہادری جلک رہا تھا۔
شہید چیئرمین پہلی مرتبہ بولان میں پہنچا اور ہمشہ بولان کو اپنے دل کا جنت کہتا تھا وہ عاشق وطن تھا۔ وہ ہمشہ کہا کرتا تھا کہ ہمیں شرمندہ ہونا چاہیے کہ ایک ظالم بدتہذیب دشمن کے ہاتھوں ہماری معصوم قوم اور مادر وطن زوال پزیر ہے اور ہمارے نوجوان فٹبال اور عشق وعاشقی کیلئے دل فِدا کر بیٹھے اور شراب و افہیم سے آرام کو تلاش کررہے ہیں۔
شہید ایک مکمل جنگجو تھا وہ جنگ کے اُس پار اپنے قوم کیلئے فتح و آرام کی اُمید رکھتا تھا جو ہر بلوچ گوریلا کی فکر ہے۔
ایک دفعہ دشمن کی ایک پوسٹ کو قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تو وہاں پہنچے۔ شہید چیئرمین وہ پہلا سرمچار تھا جو پوسٹ کے اندر داخل ہوا اور پوسٹ کے اندر سب بزدل دشمن اہلکاروں کو مار کر بلند آواز سے اپنے ساتھیوں کو پکارا کہ فتح اللّٰہ کی ہے اور ہماری ہے۔
شہید نے کئی بار دشمن سے لڑکر اسے شکست دی اور قوم کی آزادی کے امیدوں کو یقین میں بدل دیا۔ ایک بار دشمن کے گیرے میں پھنس گیا تو دشمن سے گوریلا وار کرنے کیلئے اپنے مورچے میں بیٹھا اور کئی بزدلوں کا سر خاص میں ملا دیا کہ اتنے میں دشمن جو فضائی حملہ کیلئے ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ کررہا تھا جس سے شہید چیئرمین کو پانچ گولیا لگی اور شہید نے اپنے کمر باندھ کر اپنے ساتھی سرمچاروں کو حوصلہ دیا اور پہاڑوں سے نکل گیا اور اپنے محفوظ کیمپ تک پہنچا۔ علاج ہونے کے دوران واپس جنگ میں آنے کی ضد کی اور کہتا تھا کہ درد صِرف وہ ہیں جو ظالم دشمن ہمارے معصوم قوم کو دے رہا ہے۔
آخر کار لمبے عرصے کے بعد 2018 میں بولان کے پہاڑوں میں صبح آٹھ بجے دشمن نے ایک علاقائی مخبر کے ذریعے شہید چیئرمین کے اوتاک کو گھیرے میں لیا اور آٹھ بجے جنگ شروع ہوئی آخر کار شہید چیئرمین نے دشمن کے کئی کرائے کے سپاہیوں کو انجام تک پہنچا کر گیرے کو توڑ کر نکل گیا لیکن معلوم ہوا کے اُسکے کچھ ساتھی سرمچار ابھی تک گیرے میں لڑرہے ہیں۔ شہید نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ساتھوں کو بچانے کیلئے واپس دشمن کے گیرے میں خود چلا گیا اور اپنی مقصد پورا کرنے کیلۓ کئی زروار نوکروں کو موت کی گھاٹ اتار دیا اور اپنے ساتھیوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے میں کامیاب ہوگیا لیکن وہ خود قومی فرض پورا کرکے جامِ شہادت نوش کرگیا۔
شہدوں کی جہد یہی پیغام دے رہی ہے کہ بلوچ نوجوان نشے کی نیند سے بیدار ہوجائیں جس نشے کے ذریعے دشمن نے تمہیں حق کی جنگ سے دور کرنے کیلیۓ سُلا دیا۔ اُٹھو یہ وقت آرام کا نہیں عمل کا ہے اور نہ یہ نیند آرام دیتی ہے تمہیں بلکہ ددر سے دو چار کرتا ہے۔
اٹھو اپنے اُن شہیدوں کو یاد کرو جو قوم و وطن کیلیۓ بہادری سے قربان ہوۓ۔ اُن شہیدوں کے نظریے کی پیروی کرو یہی ایک راستہ ہے ظلم سے جان چھڑانے کا۔۔ اپنی دشمن کو پہچانوں ضروری نہیں کہ دشمن نے تمہیں کچھ نہیں کیا بلکہ یہ سوچو کہ کل تمہارے ساتھ ایسا ہی ہو گا تو کل سے پہلے آج دشمن کا راستہ روکو اور ظلم کے ہاتھ کاٹ دوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں