امریکی صدر جو بائیڈن اور جرمن چانسلر اولف شولز نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ روس پر یوکرین کی جنگ کے باعث پابندیاں عائد کرتے رہیں گے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یورپی یونین کے ایک اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ چین کی طرف سے روس کو کسی بھی قسم کے اسلحے کی فراہمی سے وہ بھی پابندیوں کی زد میں آئے گا۔
امریکی صدارتی دفتر کی انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ بائیڈن اور شولز نے اوول آفس میں ایک گھنٹے سے زائد وقت تک علیحدگی میں ملاقات کی۔ اس دوران دونوں رہنماؤں کی گفتگو یوکرین کے لوگوں کے ساتھ مستقل ’عالمی یکجہتی‘ کی اہمیت اور یوکرین کو سکیورٹی، انسانی، اقتصادی اور سیاسی مدد فراہم کرنے کے لیے جاری کوششوں پر مرکوز تھی۔
صدر بائیڈن نے جرمن رہنما کا ان کی ’مضبوط اور مستحکم قیادت‘ اور یوکرین کی حمایت کے لیے شکریہ ادا کیا۔ جرمن چانسلر اولف شولز نے کہا کہ یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ اتحادی ’جب تک اور جہاں تک ضروری ہو‘ یوکرین کی حمایت جاری رکھیں گے۔
دونوں رہنماؤں کی ملاقات سے قبل امریکی حکام نے کہا تھا کہ گفتگو کے نکات میں جنگ کی صورتحال اور اگر چین روس کو فوجی امداد فراہم کرتا ہے تو اس کا جواب کیسے دیا جائے، بھی شامل رہیں گے۔
جرمن چانسلر شولز کا ایک روزہ مختصر دورے پر واشنگٹن پہنچے تھے۔ ان کے ایجنڈے میں کوئی اور ملاقاتیں نہیں تھیں۔ دسمبر 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے یہ اُن کا وائٹ ہاؤس کا دوسرا دورہ تھا۔
صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر نے بھی اپنے جرمن ہم منصب سے ون آن ون ملاقات کی۔
واشنگٹن نے حالیہ ہفتوں میں کہا ہے کہ چین روس کو ہتھیار فراہم کرنے پر غور کر رہا ہے تاہم امریکی حکام نے ثبوت فراہم نہیں کیے۔
بیجنگ نے روس کو اسلحہ فراہم کرنے کے کسی ارادے کی تردید کی ہے۔
صدر بائیڈن سے جرمن چانسلر کی ملاقات سے قبل وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کرائن جین پیئر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم نے ابھی تک چین کو کچھ کرتے ہوئے نہیں دیکھا، کیونکہ یہ مہلک ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چین کا روس کی طرف ہر قدم اُس کے لیے یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو مشکل بنا دے گا۔