سندھ میں نو آبادکاروں کے خلاف تحریک کیوں ہے؟ – معشوق قمبرانی

625

سندھ میں نو آبادکاروں کے خلاف تحریک کیوں ہے؟

تحریر: معشوق قمبرانی

دی بلوچستان پوسٹ

سندھو دریاء کے کناروں پر صدیوں سے قائم و دائم سندھ وطن کو وادی سندھ یا سندھودیش بھی کہا جاتا رہا ہے۔

کبھی تو اس مٙہا دیش کا ایک کنارہ سندھودریاء کے سینے پر پہاڑوں کے بیچوں بیچ وادیء کیلاش سے ہوتا ہوا ، ٹیکسیلا اور سرائکی وسیبوں میں ہڑاپا کے ہزارہا سالہ پرانی تہذیبوں کو بناتا ہوا ، مہر گڑھ اور موہن جو دڑو اور کوٹڈیجی سے ہوتا ہوا آمری اور کٙچھ کاٹھواڑ اور سومناتھ تک کی وسیع و عریض جغرافیہ تک پھیلا ہوا تھا۔ جسے دنیا کے تمام قدیم تاریخی کتابوں میں “سندھو تہذیب یا انڈس سولائیزیشن” کے نام سے بھی لکھا اور بلایا گیا ہے۔

تاریخ کے مختلف ادوار میں بیرونی حملہ اور قبضہ آور لشکروں نے اس خطے کے سرسبز و خوشحال وطن سندھ پر ہر اطراف سے ہزاروں حملے کیئے ہیں، اور اس وادی سندھ کے الگ الگ علاقوں پر حملہ اور قبضہ آور ہوتے چلے گئے۔

یہ سندھو گھاٹی کا ہی “ویدک فلسفہ” ہے کہ سندھ واسیوں نے تاریخ میں کبھی بھی دنیا کی کسی بھی دوسری قوم یا علاقے پر نا کبھی حملہ کیا ہے اور نا ہی کسی پر قبضہ ۔ کیوں کہ سندھ اتنی زرخیز اور خوشحال رہی ہے کہ اِسے کسی اور کی زمین یا رزق پر قبضہ یا حملہ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہی کبھی۔

یہ سندھ ہی ہے جو انسانیت اور فطرت کے سب سے پہلے فلسفے ویدک دھرم یا سندھو دھرم کی تخلیقار بنی ، جسے آگے چل کر
” ہندو دھرم ” بنادیا گیا۔ سِندھو دھرم کی معنیٰ ہے مٹی کا مذہب ، جس میں وطن کے، قدرت کے، فطرت کے تمام نظاروں اور خوبصورتیوں کی پوجا کی گئی۔

دنیا کے سب سے پرانے کتاب رگ وید سمیت چاروں “وید ” اسی ہی سندھو دریاء کے کنارے لکھے گئے ۔

یہ سندھو تہذیب دراوڑوں کی تہذیب تھی ، جس پر کئی صدیوں تک باہر سے آنے والے ” آریا ” حملہ آور لشکر حملہ کرتے رہے ۔ جو خود آگے چل کر اِسی تہذیب میں سٙما گئے۔ آریاوں کے دو بڑے قبیلوں کوروئوں اور پانڈوئوں کی تاریخ کی سب سے پرانی مٙہابھاری لڑائی اسی ہی سرزمین پر لڑی گئی۔ جس کو تاریخ میں “مہابھارت” کے نام سے جانا جاتا ہے۔

گیتا اور ہندستان کے تمام اوائلی تاریخ کے کتاب لکھتے ہیں کہ اس وقت بھی سندھودیش کا راجا جئدرتھ دراوڑ تھا ، جو اس لڑائی میں کوروئوں کی طرف سے اُس وقت کے “خُدائوں” سے لڑا تھا۔

این مورا نے اپنے کتاب “ڈانسنگ شیڈوز ” میں سندھ کو مذہبوں کی ماں لکھا ہے۔ دنیا کے تمام اوائلی مذہبوں کے تصوارت کس طرح سندھ کے ویدک فلسفے سے لیئے گئے ہیں ۔ اس پر ہی سائیں جی ایم سید نے بھی اپنے کتابوں “سندھو کی سانجاہ اور جیسے مینے دیکھا ” میں لکھا ہے کہ مجھے تمام مذاہب کے اصل روح کے پیچھے ایک “بنیادی وحدت” کارفرما نظر آئی ہے۔ یہ ہی سندھ کا “سناتن دھرم یا سندھو دھرم ” یعنی فطرت سے پیار کرنے کا فلسفہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی فلسفے میں دریائوں ، سمندروں، پنچھیوں، پرندوں ، فطرت کے تمام مناظر اور “دٙھرتی جِیوت” سے پیار اور پالنا شامل ہے ۔
یہ ہے سندھ کا اصل روح ہے ۔ جس میں تشدد نہیں۔ جس میں وحشانیت نہیں۔ جس میں جٙبر نہیں ۔ جس میں کِسی پر بھی حملہ یا قبضہ نہیں ۔ یہ ہی امنِ عالم اور اتحاد انسانی کی عالمی پیامبر سرزمین ہے، جِس نے اِس کو پہچانا ہے اور سٙمجھا ہے ، وہ اِسی کا ہی ہوگیا ہے۔

یہ وہی سندھ ہے جس پر 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم یونانی نے حملہ کیا تھا ۔ اور اسی سندھو دریا کو یونانی اُچار
” اِنڈو” کے نام سے لکھا اور پکارا ۔ جو یونانی تاریخوں میں بعد میں چل کر “انڈس اور بعد میں ” انڈیا ” کے نام سے لکھا اور پڑھا گیا۔ آج انڈیا کے نام سے جو ملک موجود ہے ۔ اس کا نام بھی اسی دریائے سندھ (انڈس) سے لیا گیا ہے۔

ِیہ وہ ہی سرزمین ہے، جس پر جب 500 قبل مسیح میں ایران کے سائرسِ اعظم نے حملہ کیا تو اسے “ہِند” کے نام سے پکارا جو آگے چل کر ہِندستان کہلایا گیا ۔ سِندھ ہی ہِند ہے ۔

یہ سندھ کی موہن جو داڑو کی ہی تہذیب ہی تھی ، جس نے دنیا میں سب سے پہلے “نمبر” (ڈجٹ) ایجاد کیا اور علم ریاضی (میتھ میٹکس ) اور علم معاشیات جیسے علموں کو تخلیق کی ، جہاں سے بیل گاڑی کے “پہیئے” کی ایجاد ہوئی ، جو آج بھی انڈیا کے ترنگے پرچم میں موجود ہے ۔ جس سندھو دریاء کنارے کپاس اگائی گئی، جس سے کپڑا بنایا گیا سندھو تہذیب نے ہی سب سے پہلے انسان کے انگ کو کپڑوں سے ڈھکا ۔ یہ اوائلی درواڑ سندھی ہی تھے ، جنہوں نے رٙنگ بنائے اور موسیقی کی اوزار اور زیورات بنائے۔ یہ سب نشانیاں اور شواہد موہن جو دڑو کے کُھدائی کے دوراں ملے ہوئے نواردات کی صورت میں آج بھی موجود ہیں ۔

یونان کے اتھینز اور ایکروپولس کے پہاڑی قلعے اور فلسفے کی باتیں بہت بعد کی ہیں۔ یہ آرکمیڈیز سے بھی صدیوں پہلے کی ایجادات ہیں۔ یہ سندھو تہذیب ایجادوں کی سرزمین ہے۔

یہ ہی وادی سندھ تھی جسے کٙنیہ کی بانسری کا دیس یا سرگرم، سُروں اور گیتوں کی سرزمین سے جانا جاتا ہے۔ جس طرح آج پورے ہندستان کو “گیتوں کی سرزمین ” کہا جاتا ہے۔ یہ سب رنگ سندھو گھاتی کی تہذیب سے ملے ہیں۔

البیرونی نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ جب میں سندھو کنارے پہنچا تو ایسا محسوس کیا جیسا دنیا کے کئی دیسوں کا تھکا ہوا کوئی مسافر اپنی ماں کی گود میں آکر پیار اور سکون کے ازلی آغوش میں چلا گیا ہو –

کسی نے اسی سرزمین کو ” دِلمون کی دھرتی” لکھا ہے تو کسی نے وادیء مہران تو کسی نے سپت سندھو دیش ۔

سندھ کے اصل باسی کون تھے ؟

تاریخ میں سندھ وطن کا سب سے پہلے ذکر تاریخِ ہندستان کے سب سے قدیم کتاب “رگ وید” میں آتا ہے۔ جو 3 ہزار سال پہلے سندھو دریاء کے کنارے ہی لکھا گیا ہے۔

سندھو تہذیب کے اصل باسی اور بنانے والے دٙراوڑ تھے۔ جس دٙراوڑ نسلوں کی کئی شاخیں آج بھی پورے ہندستان اور پورے برِصغیر میں پھیلی ہوئی ہیں ۔

ان دراوڑ نسلوں میں ملاح ، میربحر ، سما ، راجپوت ، براہوی زبان بولنے والوں سمیت تامل ، تیلیگو ، کٙچھی، کاٹھیاواڑی، ڈھاٹکی، جتکی ، کاچھیلی، اوڈ ، بھیل، میگھواڑ، اور تمام سماٹ نسلوں سمیت ہزاروں نسلیں اور قبیلے شامل ہیں۔

جن میں بہت نسلوں نے مختلف وقتوں پر سندھ پر ہوتے ہوئے بہت سے باہری حملوں کے دوران خود کو کبھی عرب حملہ آوروں ، تو کبھی آریائوں، کبھی ایرانیوں ، کبھی تُرکوں، کبھی منگولوں، کبھی مغلوں ، کبھی ترخانوں اور تاتاریوں سے جاکر جوڑا اور جھوٹے شجرے بنوائے ۔ یہ احساس کمتری اور شکست خوردہ ذہنیت اور سوچ کی عکاسی تھا ۔

حالانکہ وادیء سندھ کے وسیع العریض قبائل اور نسلوں کا اگر ڈی این اے کیا جائے تو آج بھی سب کے سب سندھ کے ہزاروں سال قدیم اسی ہی دراوڑ نسلوں سے جاکر ملے گا ، جن کی جٙڑیں سندھو تہذیب اور اِسی مٹی سے جُڑی ہوئی ہیں ، جس پر فخر ہونا چاہیے ۔

تاریخ کے مختلف ادوار میں جس طرح روءِ زمین پر نسلِ انسانی کی مختلف اسباب کی وجہ سے ایک خطے سے دوسرے خطے کی طرف اور ایک ملک سے دوسرے ملکوں کی طرف منتقلی (مائگریشن) ہوتی رہی ہے۔ اسی طرحہ سندھ میں ہزاروں سالوں کے عرصے کے دوران مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک کی کئی نسلوں کی آمد ہوتی رہی ہے اور اسی طرحہ سندھو تہذیب پر 12 سئو قبل مسیح میں آریائوں کے بڑے حملوں اور سندھو دریاء کے رُخ تبدیل ہونے کی وجہ سے سندھ کے اصل باسیوں دراوڑوں کی بھی ایک طرف جنوبی ہندستان کے آخری علائقوں تامل ناڈو تک مائگریشن ہوتی رہی ہے تو دوسری طرف مغرب میں کیکانان (قلات) ، خُراسان ، مکران اور کرمان (موجودہ بلوچستان) سے لیکر دور یورپ کے دیسوں تک مائگریشن ہوتی رہی ہے۔ یورپ میں جنہیں آج “جِپسی” کہتے ہیں اور ہندستان میں آج جنہیں تامل اور تیلگو کہتے ہیں۔ یہ سب سندھو وادی کی دٙراوڑ نسلوں کا سفر ہے۔ اور تاریخ کے کئی ہزار سالوں کے سفر کے بعد پھر اُنہی نسلوں سے کئی نسل پھر سندھو تہذیب کی طرف واپس بھی آکر آباد ہوتے رہے ہیں ۔ اِسی طرحہ کُرہِ عرض پر نسلِ انسانی کا سفر مشرق سے مغرب تک اور مغرب سے مشرق تک صدیوں تک جاری رہا ہے۔

سندھ اپنے ہزاروں سالوں کے تاریخی پراسز کے بعد ایک علحدہ وطن کے طور پر بھی اس دنیا کے نقشے پر آزاد و خودمختیار ملک اور سلطنت کی حیثیت سے رہتا آیا ہے۔

سندھ کی سرزمین ان ہزاروں سالوں کے نسلِ انسانی کے سفر کے دوراں بِنا کسی نسلی فرق کے دنیا کے تمام نسلوں کو اپنے سینے میں سماتا آیا ہے۔ یہاں پر عرب آئے، ایرانی آئے، کُرد آئے، تُرک آئے ، دنیا کے مختلف علائقوں سے مختلف نسل اور انسانی قافلے آتے رہے اور سندھ میں سٙماتے گئے۔ جو لوگ یا لشکر سندھ پر حملے اور قبضے کی نیت سے آئے ، آج انہوں کے سندھ میں مٙکلی اور سُونڈا کے قبرستان بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن آج ان حملے آوروں کا سندھ میں نام نشان نہیں ملتا ۔

لیکن جو انسانی نسلیں اور قبیلے سندھ میں پناہ کے لیئے آئے ، سندھ کو اپنی ماں دھرتی بنایا ، سندھ کو اپنایا ، سندھ میں سٙما گیا۔ سندھ نے بھی ان کو اپنا بنالیا ۔ اور آج وہ سندھ کی اولاد اور اس وطن کے وارث اور مالک ہیں۔ سندھ نے ان کو اپنا رکھوال بنا دیا ۔ جو سندھ کو جانے اور پہچانے تو یہ ہی ہے سندھ ۔

سندھ کیا ہے؟

سندھ کوئی ایک نسل نہیں اور نا ہی کوئی ایک قبیلہ، رنگ ، مذہب یا ایک زبان ہے۔ سندھ ایک وطن ہے ۔ ایک سرزمین ہے۔ صدیوں سے اپنی پہچان سے قائم و دائم ایک الگ دیس ہے۔ یہ تمام نسلوں، تمام قبیلوں ، تمام زبانوں ، تمام ثقافتوں اور تمام مذاہب ، فطرت اور انسانیت پرست قائدے قانونوں کا ایک رنگ بِرنگی گُلدستہ ہے۔

یہ وہ ہی سندھ ہے، جس نے اپنی سٙرزمین پر پناہ لینے والے امام حسین کی اولاد اور عرب مہمان پناہ گزینوں کو پناہ دی ، جس پر اس وقت کا اُمیہ عرب سامراج سندھ کے راجا داہر پر ناراض ہوا۔ اور اُن پناہ گزینوں کو بنو امیہ سلطنت کے حوالے کرنے کا خط لکھا۔ یا جنگ کے لیئے تیار ہونے کی دھمکی دی۔

سندھ کا بادشاہ راجا داہر اپنی سرزمین پر پناہ گزینوں کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے خود جنگ کے میدان میں مارا گیا۔ لیکن پنی سرزمین کی پناہ دینے کی روایت اور وطن کی دفاع کا اٙلم اونچا رکھا۔

1648 ع کے بعد ساری دنیا کی تمام ریاستوں کو “نیشن اسٹیٹ سسٹم” تحت بنا یا گیا۔ جس “جدید قومی ریاست” کے بنیاد پر آگے چل اقوامِ متحدہ بنی۔ یہ قانوں دنیا کے تمام ممالک اور وطنوں میں آج لاگو ہوا ہے کہ جو بھی پناہ گزین چاہے کسی بھی نسل ،مذہب یا زبان سے تعلق رکھتا ہو۔ تو اس وطن میں مستقل رہنے پر اسے اس وطن کا وطنی مانا جاتا ہے۔ لیکن یہ ہی قانوں اور روایت سندھ وطن میں صدیوں سے قائم ہے۔ کہ سندھ میں مُستقل طور پر رہنے والے تمام نسلیں ، تمام زبانیں بولنے والے اور تمام شہریوں کو وطنی طور پر سندھی شہریت کا درجہ ديا جاتا ہے اور “سندھی” مانا جاتا ہے۔

قومیں کسی مذہب، کسی نسل یا کسی زبان کے بنیاد پر نہیں بنتی۔ قومیں وطن کے بنیاد پر بنتی ہیں اور پہچانی جاتی ہیں۔ اس کا شجرہ، مذہب ،ذات پات ،رنگ و نسل چاہے کوئی بھی ہو۔ لیکن جو جس وطن میں کئی سئو سالوں سے مستقل طور پر آباد ہے یا رہتا ہے۔ وہ اسی ہی وطن کے نام سے پہچانا جا تا ہے ۔ سندھ یہ ہی ہے۔

سندھ کی اِس ہزارہ سالہ منظر کشی پر کسی شاعر نے لکھا ہے کہ
“او اٙندھ نگر کے رٙہواسی، تُم سِندھ نٙگر کو کیا جانو …! “

اب سندھ میں نو آبادکاروں کے خلاف تحریک کیوں ہے؟

نو آبادکاری (کالونائیزیشن) دنیا میں کسی بھی قوم کی زمین اور وطن پر قبضہ کرنے کا بہت بڑا ہتھیار رہتا آیا ہے۔

پچھلے 500 سالوں میں آزاد سندھ ملک پر پہلے سٙما، کلہوڑا اور ٹالپر دور میں ہونے والے بیرونی حملوں میں اور پھر انگریز حملوں اور پاکستان بننے کے بعد سندھ وطن کے بہت سے تاریخی علائقے اور حِصے ہندستان ، پنجاب و دیگر علائقوں میں کاٹ کر دیئے گئے یا قبضہ کیئے گئے ہیں ۔ اِس وجہ سے کسی وقت میں ڈھائی لاکھ چورس میل کا سندھ کا تاریخی جغرافیائی رقبہ اب صرف 58 ہزار چورس میل تک سُکڑ کر رہ گیا ہے ۔

آزاد سندھ مُلک پر 1843ع میں انگریزوں نے حملہ کیا ،سندھ کا الگ وطنی وجود ختم کیا ،جس پر سندھی سئو سالوں تک لڑتے رہے اور 1935ع میں ہندستان کے بننے والے نئے آئین میں سندھ کا وجود کسی حد تک دوبارہ تسلیم کروالیا۔ لیکن 1947ع میں انگریزوں کے منشا پر بنائے گئے نئے جعلی اور اسلامی ملک پاکستان میں سندھ وطن کے قومی وجود پر دوبارہ وہی حملہ ہوا۔ اور مشرق (یوپی، سی پی) سے مغرب تک کے علائقوں شمال(پنجاب) سے لیکر جنوب بنگال کے علائقوں سے ایک ہی وقت میں لاکھوں اورکروڑوں کی تعداد میں ایسے لوگوں کو ایک منظم منصوبابندی کے تحت سندھ کے شہروں اور ساحل سمندر پر لاکر آباد(کالونائیز) کیا جانے لگا ، جس کی وجہ سے ہزاروں سالوں سے رہنے والے وطن کے اصل باشندوں سندھیوں کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔ جس کے نتیجے میں سندھ میں اپنے وجود کی بقا کی جدوجہد سیاسی اور مزاحمتی دونوں ہی شکل میں زور پکڑ گئی ہے۔

اس لیئے 1988ع میں سندھ میں جدید قومپرستی کے بانی سائیں جی ایم سید کی رہنمائی میں سندھ کی تمام جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کا “سندھ قومی اتحاد” کے نام سے ایک بڑا اتحاد بنا ۔ جس میں تقریباٙٙ ساری سندھی قوم کی نمائندہ جماعتیں ، فرد اور ہر علائقے کے اثر رسوخ رکھنے والے تمام لوگوں کی نمائندگی تھی۔ “سندھ قومی اتحاد” کے اس مشترکہ قراداد میں پاکستان بننے بعد جو 1954ع تک جو مُہاجر آئے ۔ یا ہندستان سے مائگریشن ہوئی ۔ ان کو سندھ کا مُستقل شہری تسلیم کیا گیا۔

لیکن 1954ع میں سندھ وطن کا تاریخی وجود کو ایک بار پھر ختم کر کے جب سندھ کے اوپر “وٙن یونٹ” کا حملہ کیا گیا اور سندھ کے گڈو ، سکھر اور کوٹری بئراجوں کی لاکھوں ایکڑ زرخیز زمینوں اور شہروں پر قبضہ کرنے کے لیئے لاکھوں کی تعداد میں پنجاب و دیگر علائقوں سے لوگوں کو لاکر سندھ میں آباد کیا گیا۔ تو 1954ع کے بعد آنے والے ان تمام آبادکاروں کو غیر سندھی قرار دیا گیا ۔ اور سندھ سے نکل جانے کا اعلانیہ جاری کیا گیا ۔ جس قرارداد پر آج بھی پوری سندھ متفق ہے۔

پاکستان بننے کے بعد اس موجودہ سندھ پر باہری آبادکای کا دبائو مُسلسل بڑھ رہا ہے۔ اور ایسے حالات میں کئی مقامی اور عالمی سازشی قوتوں کی جانب سے اس بٙچی کُچھی موجودہ سندھ کے بھی ٹکرے کرنے اور کراچی سمیت اس کے کئی علائقوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں اور سازشیں کی جا رہی ہیں۔ سندھ میں نو آبادکاروں کے خلاف سندھیوں کی مزاحمت کا زور پکڑنا اس چیز کا فطری رد عمل ہے۔

سندھ میں بِنا کسی رنگ ،نسل ، مذہب یا زبان کے فرق کے صدیوں سے آباد بلوچوں ، فارسیوں ، پشتونوں اور 1954ع سے پہلے آئے تمام مہاجروں اور پنجابیوں(جو سندھ کو اپنا وطن مانتے ہیں) کے سندھ وطن پر اتنے ہی مالکانہ حقوق ہیں جتنے کہ ہزاروں سالوں سے رہنے والے دوسرے دھرتی دھنی سندھیوں کے ۔ جو سندھ کی قومی وحدت اور جغرافیائی انٹیگیرٹی پر یقین رکھتے ہیں ۔ یہ وطن ان سب کا ہے۔

سندھی سمجھتے ہیں کہ “پاکستان اور مسلمان قوم” کے نام پر ہماری زمین ہمارے پائوں تلے کھینچنے کے لیئے یہ ہمارے وطن اور قومی وجود پر بہت بڑا حملہ ہے۔ اس لیئے سندھی اپنی زندگی اور موت کی آخری جنگ سمجھ کر لڑ رہے ہیں۔ یہ جنگ کسی ایک نسل یا زبان بولنے والوں کے خلاف نہیں بلکہ یہ جنگ ان تمام نسل پرست ٹولوں اور سندھ دشمن حملہ اور قبضہ آوروں کے خلاف ہے ، جو سندھ کو سندھیوں کا تاریخی وطن تسلیم نہیں کرتے۔ سندھ میں سندھی بن کر رہنے کے لیئے تیار نہیں ہیں اور جو لوگ یا نسل پرست ٹولے سندھ پر حملہ و قبضہ آور ذہنیت کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ ساری مزاحمت اس حملہ و قبضہ آور نسل پرست ذہنیت اور قوتوں کے خلاف ہے۔ جس میں یقیناٙٙ آخری فتح وطن واسیوں کی ہی ہونی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں