سعودی عرب، ایران معاہدہ اور خطے پر اثرات
ٹی بی پی اداریہ
گذشتہ ہفتے چین کی مصالحتی کوششوں سے مشرقی وسطیٰ کے دو بااثر حریف ممالک سعودی عرب اور ایران نے کئی سالوں سے منقطع سفارتی تعلقات بحال کرنے اور اگلے دو ماہ میں بند سفارت خانے کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ چین سے پہلے عمان اور عراق کی میزبانی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مزاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی کے بلواستہ یا بلا واستہ اثرات ہمارے خطے پر پڑیں گے۔
تعلقات بحالی سے پہلے مشرقی وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے سنی اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران کے درمیان کشیدگی جاری رہی ہے اور مشرقی وسطیٰ کے کئی مملک اس کشیدگی کے زد میں ہیں۔ یمن، شام، عراق اور لبنان میں سعودی عرب اور ایران کی بالادستی کے لئے جنگ چل رہی ہے اور دونوں ممالک مختلف حریف دھڑوں کو سپورٹ کررہے ہیں۔ ایران کے پراکسی تنظیموں نے اِن ممالک میں سعودی عرب کے لئے مشکلات میں اضافہ کیا ہے اور حوثی باغیوں کی جانب سے آرامکو کے تیل تنصیبات پر شدید حملوں اور امریکہ سے تعلقات میں سرد مہری و خطے میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافے کے بعد سعودی عرب اپنی پالیسی بدلنے اور ایران کے ساتھ تعلقات بحالی کا معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا ہے۔
ہمارے خطے اور بلوچستان میں بھی سعودی عرب اور ایران اپنے پراکسی تنظیموں کے ذریعے ایک دوسرے کے لئے مسائل پیدا کرتے رہے ہیں۔ سعودی عرب سنی انتہاء پسند تنظیموں اور مدرسوں کی مالی مدد کر رہا ہے اور یہ تنظیمیں بلوچستان میں شیعہ آبادی ( خاص طور پر ہزارہ کمیونٹی ) کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ایران کا الزام ہے کہ اُن کے خلاف لڑنے والے سنی بلوچ تنظیموں کو بھی سعودی عرب مالی مدد کر رہا ہے۔
بلوچستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں شعیہ آبادی میں موجود کچھ عناصر اور تنظیموں کو ایران سپورٹ کررہا ہے اور شعیہ آبادی سے بڑی تعداد ایران کی سرپرستی میں لڑنے کے لئے شام، عراق اور یمن جاچکے ہیں۔ پاکستان میں شیعہ آبادی کو زینبیوں بریگیڈ اور افغانستان میں فاطمیون بریگیڈ میں منظم کررہا ہے جو پاکستان و افغانستان میں ایران کے مفادات کے لئے کام کررہے ہیں اور دنیا کے دوسرے ممالک میں ایران کے پراکسی جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔
یہ بات قبل از وقت ہے کہ ایران اور سعودی عرب مشرقی وسطیٰ اور ہمارے خطے میں پراکسی تنظیموں کی مدد بند کردیں گے یا تنازعات اور کشیدگی اسی طرح جاری رہے گی لیکن مشرقی وسطیٰ میں ابراہیم معاہدے کے بعد اسرائیل اور عرب ملکوں کی تعلقات بحالی کے بعد ایران کے خلاف نئی صف بندی ہورہی تھی، ان حالات میں ایران اور سعودی عرب کا معاہدہ ایران کی بڑی کامیابی تصور ہوگی اور چین کے توسط سے معاہدہ مشرقی وسطیٰ میں چین کی خارجہ و اقتصادی ڈپلومیسی کی کامیابی ہے جو خطے میں اس کے کردار کو بڑھاوا دے گی جس کے اثرات بلواستہ یا بلا واستہ بلوچستان پر بھی پڑیں گے۔