زیر حراست افراد کے اعترافی ویڈیوز کے متعلق قانون کیا کہتی ہے؟

1029
مبینہ اعترافی ویڈیو ایک غیر معروف ٹوئٹر اکاونٹ سے سامنے آئی۔

زیر حراست ماھل بلوچ کی ویڈیو شائع کرنا خود غیرقانونی عمل ہے۔ ماہرین قانون

سترہ فروری 2023 کو کوئٹہ سے جبری گمشدگی لاپتہ و بعد ازاں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں گرفتاری ظاہر ہونے والی ماھل بلوچ کا کیس ہر روز ڈرامائی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔

اس کیس میں اب تک عدالت سے سی ٹی ڈی کی جانب سے دو مرتبہ سات سات اور دو مرتبہ دس دس روزہ ریمانڈ کی اجازت لی گئی۔

تاہم آج سی ٹی ڈی اور حکومت بلوچستان کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کی گئی، جہاں ماھل بلوچ پہ سنگیں الزامات لگائے گئے جبکہ ایک مبینہ ویڈیو بھی سی ٹی ڈی کی جانب سے شائع کی گئی۔

جاری کردہ ویڈیو میں ماھل بلوچ کو مبینہ طور پر کئی چیزوں کو اعتراف کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

زیر حراست کسی فرد کی ویڈیو کے حوالے سے قانونی موقف کیا ہے اس حوالے سے جب دی بلوچستان پوسٹ نے قانونی ماہرین سے رابطہ کیا تو کہا گیا ہے کہ اس طرح کے چیزوں کی اجازت قانون نہیں دیتی ناہی عدالت اس طرح جبراً لے گئے اعترافی بیان کو قبول کرتی ہے۔ اور ناہی قانون اس کی اجازت دیتی ہے۔

جب ہم نے پوچھا کہ ویڈیو کو پبلک کرنے کے حوالے سے قانونی موقف کیا ہے، قانون دانوں کا کہنا تھا کہ قانون اس طرح کے چیزوں کی اجازت بلکل بھی نہیں دیتی ہے اور اس طرح کی چیزیں غیرقانونی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے عمل کیس کو متاثر اور عدالتی نظام کو گمراہ کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں، جو سرا سر غیر قانونی ہیں۔

انہوں کہا کہ اس طرح کے عمل سے عدالت کو خود چاہیے وہ سوموٹو نوٹس لیں اور اس عمل کے ذمہ داروں پہ قانونی کاروائی کریں۔

واضح رہے بلوچستان میں کاونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی کاروائیوں پر ماضی میں سوالات اٹھائے جاچکے ہیں جبکہ جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو قتل کرنے کیخلاف بڑے پیمانے پر احتجاج بھی دیکھنے میں آئیں۔

بلوچستان میں سی ٹی ڈی کیجانب سے اس طرح کی متعدد ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہے جن میں جبری لاپتہ افراد کو بیانات دیتے ہوئے دکھایا جاچکا ہے تاہم ان کارائیوں اور زیرحراست افراد کے مبینہ بیانات پر کسی قسم کی قانونی کاروائی عمل میں نہیں آسکی ہے۔