خواتین کے حقوق کا عالمی دن – ٹی بی پی اداریہ

244

خواتین کے حقوق کا عالمی دن

ٹی بی پی اداریہ

جنگ زدہ بلوچستان میں بلوچ خواتین دوہرے جبر کی اذیت سے گذررہے ہیں۔ ایک طرف بلوچ خواتین مقامی سردار و جاگیرداروں کی بزور طاقت مسلط کی گئی بوسیدہ روایتوں کے اسیر ہیں، تو دوسری طرف ریاستی جبر کا بھی شکار ہیں۔

8 مارچ کو دنیا بھر کے خواتین اپنے حقوق کے لئے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے حقوق کی جدوجہد کو منظم شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن بلوچستان میں بلوچ خواتین اپنے حقوق کے بجائے اپنے جبری گمشدہ پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج کرتی ہیں۔ بلوچ خواتین نے اس سال 8 مارچ دو ہزار تئیس کو بھی مغربی و مشرقی بلوچستان میں جبری گمشدہ افراد اور ماہل بلوچ سمیت جبری لاپتہ بلوچ خواتین کی بازیابی کے لئے کراچی، کوئٹہ اور خاش میں مظاہرہ کیا۔

جبری گمشدہ آصف اور رشید بلوچ کی بہن سائرہ بلوچ کے الفاظ جنگ زدہ بلوچستان کے خواتین کی نمائندگی کرتی ہیں۔ سائرہ کا کہنا ہے کہ “ ہم اپنے مردوں سے آزادی نہیں اپنے مردوں کی آزادی چاہتے ہیں، ہمارا استحصال ہمارے مرد نہیں ریاست کر رہی ہے “ یہ صرف سائرہ کی نہیں بلکہ ہر اُس بلوچ خاتون کے خیالات ہیں جو بلواستہ یا بلا واستہ ریاستی جبر کا شکار ہیں اور اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے سالوں سے جدوجہد کررہے ہیں۔

بلوچستان میں پہلے صرف مرد جبری گمشدگی کے شکار بنائے جاتے تھے لیکن اب بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں میں بھی تیزی آئی ہے۔ بلوچستان میں حالیہ کچھ عرصے سے تربت ، کراچی ، بولان اور کوئٹہ سے بلوچ خواتین کو جبری گمشدہ کیا گیا ہے اور ماہل بلوچ کو جبری گمشدگی کے بعد سی ٹی ڈی کے حوالے کیا گیا تھا، جو اب بھی اُن کی تحویل میں ہے۔

بلوچستان کی آزادی کے لئے بر سر پیکار تنظیمیں اور پارٹیاں ریاست پر الزام عائد کرتے ہیں کہ سیاسی جدوجہد میں بلوچ خواتین کے کردار کو روکنے کے لئے اُن کو جبری گمشدہ کیا جارہا ہے اور بلوچستان کی تحریک آزادی سے وابستہ افراد کے خاندانوں کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ آزادی پسند حلقے یہ خدشہ بھی ظاہر کررہے ہیں کہ مستقبل میں بلوچ خواتین پر ریاستی جبر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں بنیادی انسانی ضروریات کو پورے کرنے کے لئے بھی احتجاج کا سہارہ لینا پڑتا ہے اور بلوچ خواتین کا پاکستان جیسے ریاست میں منظم تحریک کے بغیر حقوق حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ بلوچ خواتین کو حقوق حاصل کرنے لے لئے اپنے تحریک کو منظم کرنے اور مستقل جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔