بلوچستان کے ضلع خضدار سے پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں نے دو نوجوانوں کو گذشتہ روز انکے گھر سے جبری لاپتہ کردیا۔
ٹی بی پی کو ذرائع نے بتایا کہ گذشتہ روز خضدار میں کھنڈ کے علاقے سے پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے خالد ولد محمد حسن اور آصف ولد عبداللہ کو اُن کے گھر سے دو بجے کے وقت حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعد ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جبری لاپتہ خالد کراچی کا رہائشی جو اپنے رشتہ داروں کو یہاں چند روز قبل آیا تھا جبکہ دونوں نوجوان طالب علم ہے۔ حکام نے واقعے کے حوالے سے کوئی موقف پیش نہیں کیا ہے۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات تشویشناک صورتحال اختیار کرچکے ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر جبری گمشدگیوں کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں۔
ٹی بی پی کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے پہلے دو ہفتوں میں بلوچستان بھر سے 34 افراد جبری گمشدگی کے شکار ہوئے جن میں سے گیارہ بازیاب ہوئے جبکہ دو ہفتوں کے دوران 3 افراد کی لاشیں ملی۔
گذشتہ روز گوادر میں حق دو تحریک کے خواتین ریلی میں بھی لاپتہ افراد کے بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔ مظاہرین نے ماہل بلوچ کے اغواء نما گرفتاری کی مذمت کی اور انہیں رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔
دریں اثناء نیشل ڈیموکریٹک پارٹی شال نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچستان میں تعلیمی و دیگر مسائل سمیت ماہل بلوچ کے جبری گمشدگی و گرفتاری ظاہر کرنے کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کیا۔
این ڈی پی رہنماوں نے بلوچ خاتون کی چار بار ریمانڈ پر دینے کو قانونی کاروائی کے نام پر تشدد قرار دیا۔