بلوچ کلچر ڈے
تحریر: مولوی اسماعیل حسنی
دی بلوچستان پوسٹ
جب سے سروں پر بالوں کا جنگل اُگانے کا ذوق عام ہوا ہے پگڑی کی نسل کے مستقبل کو کئی طرح کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں، قبل اس کے کہ پگڑی صرف سکھوں کی مذہبی پہچان اور ٹوپی گنجوں کا امتیازی نشان بن کر رہ جائے آج سے جملہ اہلِ پگان و ٹوپان سر کی شان اور سر کے اوپر زندگی بسر کرنے والی اس خاندان کی آن کو بحال کرنے کی جدوجہد کریں تاکہ رہتی دنیا تک پگڑی اور ٹوپی سربلندی کا نشان رہے ورنہ دیکھتے ہی دیکھتے ٹوپی دار بندوق کی طرح پگڑی دار ٹوپی کا بھی نام و نشان دنیا سے مٹ جائے گا، پھر پگڑی اور ٹوپی بجائے فرق نشینی کے عجائب گھروں کا زینت بن جائیں گی۔
پگڑی سر کی شان ہی نہیں کسی قوم، قبیلہ، معاشرہ اور کنبے کی بھی آن ہے، یہ جب کسی سردار کے سر پر رکھی جائے تو قبیلے کی عزت کہلاتی ہے، جب مولوی کے سر پر باندھ دی جائے تو انہیں کسی نہ کسی درجے میں امام و مقتدا مانا جاتا ہے، جب پگڑی سیاسی لیڈر کے سر پر ہو تو سیاسی ورکرز کی آبرو بن جاتی ہے اور جب پگڑی کسی حکمران کے سر پر فروکش ہوجائے تو اسے قوم کی سرفرازی کا نشان مانا جاتا ہے۔
جسمانی اعضاء میں جو فضیلت سر کو حاصل ہے، لباس میں پگڑی کو عین وہی مقام دیا گیا ہے، پگڑی کو یہ مقام صرف آج حاصل نہیں بلکہ آفرینشِ عالم کے وقت سے حاصل رہا ہے یہی وجہ ہے کہ پگڑی کی اس قابلِ رشک برتری کی وجہ سے کئی ضرب الامثال ہماری زبانوں میں مروج ہیں، مثلا شملہ کا اونچا ہونا، دونوں ہاتھوں سے پگڑی کا تھامنا، پگڑی اچھالنا، پگڑی پاؤں پہ رکھنا، پگڑی بدل بھائی، پگڑی الجھنا وغیرہ وغیرہ۔
دینی مدارس میں طلبہ کی فراغت کا اعلان پگڑی بندی سے کیا جاتا ہے جسے ہمارے ایک دوست ”دماغ بندی“ سے تعبیر کرتے ہیں، قبائل و اقوام میں بعض جگہ مہمانوں کی تکریم پگڑی باندھ کر کی جاتی ہے، ہمارے مشرقی تہذیب میں پگڑی لباس کے اندر ایک امتیازی وصف کے طور پر مانا جاتا ہے، مشرق تو مشرق ہے ہمارے پسندیدہ مغربی تہذیب میں بھی پگڑی کی نائب ٹوپی کو ایک اعلی مرتبت سے نوازا گیا ہے، سلام کرتے وقت ٹوپی اتارنے کو اظہارِ تعظیم و تکریم مانا جاتا ہے، فوجی افسراں کے مرنے کےبعد ٹوپی جنازہ پر رکھ دی جاتی ہے غرض یہ کہ ٹنڈرا کے برف بدوش کوہستان ہوں یا عرب کے ریتیلے میدان، ہمارے خراسان کے پہاڑی چٹھان ہوں یا ریگستان، اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر ہو یا ہمارے قبائل کے جرگے، غرض ہر جگہ پگڑی اور پگڑی کی نائب ٹوپی سب سے اونچے نظر آتے ہیں اس لیے کہ فارسی کا ایک مشہور محاورہ ہے:
”صدر ہر جا کہ نشیند صدر است“
(صدر جہاں بھی بیٹھے وہ صدر ہی رہتا ہے)
عقل و دلیل، قیاس و قرینہ سے پگڑی ہر ٹوپی کی ماں معلوم ہوتی ہے، پگڑی کی موجدین اور سلف نے کسی طرح سر چھپانے کےلیے کپڑے کی مدد لی ہوگی لیکن اُن کے تنوع پسند خلف نے سر آرائی کےلیے طرح طرح کی جدت طرازیاں کر رہا ہے، آج دستار، صافہ، رومال، ٹوپی، پٹکا، سیلا، عمامہ وغیرہ یہ سب پگڑی ہی کے خانوادے کے چشم و چراغ ہیں یہاں تک کہ صورت حال یہ ہے کہ پگڑی اب تو سکھوں کا مذہبی لباس بن کر رہ گئی ہے، ظاہر ہے کہ پگڑی کے علاوہ کس لباس میں اس قدر ظرف ہوسکتا ہے؟ بہر حال اگر اچھلنے کا اندیشہ نہ ہو تو فی زماننا بھی یہ ایک شاندار لباس ہے اور اچھلنے کی صورت میں سب سے خطرناک لباس بھی، خطرناک اس لحاظ سےکہ موش سر لوگ بھی اس میں انسان دکھائی دیتے ہیں اور پیلتن انسان شیرِ ببر نظر آتے ہیں، خطرناک اس لحاظ سے بھی کہ قبائل میں پگڑی کی اچھلن سے کبھی کبھار لوگ بھی قتل ہوجاتے ہیں۔
پگڑی ایک اعتبار سے سردی میں جاڑے سے مدافعت کا کام دیتا ہے تو گرمی میں لو سے محافظت کا بھی قابلِ اعتماد ذریعہ ہے، اس کو باندھنے سے انسان کا دماغ آسمان کو پہنچ جاتا ہے، اس کی چنری میں ایک خاص چھب ہے، ایک رنگین کشش ہے جو شوخ اشارے کرتی ہے مگر افسوس کہ اس کا استعمال عوام تو رہے عوام خواص کے یہاں سے بھی رخصت ہوتا جا رہا ہے، ہمارے بلوچ سردار ایک طرف بلوچیت کا دعوی رکھتے ہیں ان کی سر پر پگڑی نہیں ہوتی اور معزز پگڑیوں کو اپنے اُن سکیورٹی گارڈز پہ لازم قرار دے چکے ہوتے ہیں جنہیں وہ خود بھی برابر کے انسان نہیں سمجھتے بلکہ پیدائشی ملازم اور خاندانی غلام تصور کرتے ہیں۔
رسم پگڑی دنیا کے نقشے سے بڑی تیزی سے مٹتی جا رہی ہے۔ ہمارے پڑوسیوں نے پگڑی میں ہر وہ نیک کام کیا ہے جسے دنیا میں مجرم کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے کئی ممالک میں پگڑی کے ساتھ سفر کرنے کی ممانعت ہے اور ویزے پر پگڑی والی تصویر الاؤڈ نہیں ہے۔
یہ پگڑی ہی ہے جسے ہمارے بلوچوں نے ترک کرکے سال میں ایک بار بطور رسم اپنانے کا فیصلہ کیا ہے، ان کی طرف سے میں قرض اتارنے کےلیے سال بارہ مہینہ باندھتا رہتا ہوں تو بجائے شکریہ ادا کرنے کے الٹا وہ مجھے ہی پشتون خیال کرتے ہیں۔ پٹھان دوست پگڑی دیکھ مجھے پشتون سمجھتے ہیں اور پھر میری پشتو سن کر پگڑی سے جنم لینے والی اپنی غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہیں۔ لبرل پگڑی دیکھ کر مجھے سخت گیر قدامت پسند اور متشدد مولوی سمجھتے ہیں اور مولوی تحریریں پڑھ کر مجھے آزاد خیال اور لبرل قرار دیتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں