جبری گمشدگی کے شکار بلوچ طالب علم رہنماء ذاکر مجید بلوچ کی والدہ نے عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے شوہر کو قتل کرنے کے بعد میرے بیٹے ذاکر مجید کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ چودہ سال میں نے اپنے بیٹے کے انتظار میں گذارے ہیں، عورتوں کے عالمی دن کی مناسبت سے بلوچ عورتوں کے لئے انصاف کا مطالبہ کرتی ہوں۔
پاکستان کے معروف ٹی وی جرنلسٹ عاصمہ شیرازی نے خواتین کے دن کی مناسبت سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر لکھا ہے کہ عورتوں کو عالمی دن مبارک! انہوں نے عورت مارچ آرگنائزرز کو بھی مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ جن کی کوششوں سے آج پاکستان بھر میں خواتین اپنے حقوق کے لئے مطالبات پیش کریں گی۔
عاصمہ نے لکھا ہے کہ اس موقع پر بلوچ خواتین کو بھی یاد رکھیں جو اپنے بھائیوں، بیٹوں کی بازیابی کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں۔
اس دن کی مناسبت سے انسانی حقوق کے متحرک آواز اور وکیل ایمان زنیب مزاری نے لکھا ہے کہ آج کا دن بلوچ خواتین کی پرامن مزاحمت کے نام ہے۔
انہوں نے آج کا دن بس خاتون کے نام کیا ہے جس نے اپنے بیٹے راشد حسین کی بحفاظت بازیابی کے لیے ہر دستیاب فورم سے رجوح کیا۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ آج کا دن سمی دین بلوچ کے نام جو صرف ایک چھوٹی بچی تھی جب وہ اپنے والد کی بازیابی کا مطالبہ کرنے سڑکوں پر نکلی تھی۔ آج کا دن ماہل بلوچ کے نام جو ایک بے رحم اور بزدل ریاست کی قید میں ہے جبکہ اس کے خلاف کوئی حقیقی مقدمہ نہیں ہے۔ اگر ہم بلوچ خواتین پر جبر کے خلاف اس وقت کھڑے ہوتے جب یہ شروع ہوا تھا تو یہ سلسلہ پورے ملک میں نہ پھیلتا۔ آج پنجاب سے راحت آنٹی اپنے بیٹے صحافی مدثر نارو کی بحفاظت بازیابی کی منتظر ہیں۔
ایمان نے لکھا ہے کہ ہر سماعت پر نارو کی والدہ اپنے پوتے سمیت اسلام آباد آتی ہیں. اس ہی طرح حمزاد بیگم اپنے دو بیٹوں زاہد امین اور صادق امین کی بازیابی کی منتظر ہیں- یہ دونوں بھائی اپنے ہی گھر سے لاپتہ کیے گئے تھے۔ آج کا دن ان تمام خواتین کے لیے وقف ہے جنہوں نے ریاست کے بدترین جبر اور استحصال کے باوجود اپنی جدوجہد کو برقرار اور اُمید کو زندہ رکھا۔