بلوچ خواتین کی عزت ناموس اپنے گھر بلوچستان میں محفوظ نہیں۔ وحید بلوچ

386

بی ایس او کے سابقہ چئرمین و بلوچستان اسمبلی کے سابقہ اسپیکر وحید بلوچ نے ماہل بلوچ کے مبینہ اعترافی وڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‏ایک بلوچ عورت کو بدنام زمانہ ریاستی ایجنسی سی ٹی ڈی من گھڑت کیس میں گرفتار کرتی ہے۔ عدالت ریمانڈ پر ریمانڈ دیتی ہے اور ایک مہینے سے زیادہ پولیس کی حراست میں نجانے کون کون سے جسمانی اور ذہنی تشدد سہہ چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب ماورائے قانون جبراً وڈیو بیان جاری کرنا کمزور ریاست کی علامت اور ‏قابل گرفت جرم ہے۔

وحید بلوچ نے کہا کہ پارلیمانی ریاست اور پاکستانی آئین پر یقین رکھنے والے اراکین خصوصاً بلوچ ممبران اسمبلی ان انسانیت سوز ، اسلامی تعلیمات کے برخلاف مروجہ آئین پاکستان کے شہری حقوق کے دفعات کے آئین شکنی پر کس قسم کا ردعمل کرکے ماھل کی آزادی اور ایسی گھناؤنی سرکاری کاروائیوں کی تدارک ‏اور روک تھام کریں گے؟ اگر بلوچ خواتین کی عزت ناموس اپنے گھر بلوچستان میں محفوظ نہیں اور گھر کا آنگن دوسروں کے ہاتھوں تار تار ہے تو گھر کے محافظوں کے دعوے پر سوال اٹھتے ہیں۔

دریں اثنا وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جنرل سیکرٹری سمی دین نے کہا ہے کہ ماہل بلوچ کی دوران حراست سی ٹی ڈی کی جانب سے اعترافی بیان جاری کروانا تب بھی ماہل کو مجرم ثابت نہیں کرتی جسکی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‏پہلے خودکش بمبار کی تیاری کا الزام اب خودکش جیکٹ کا کسی اور کو پہنچانے کے بیانیئے میں تضاد ہے، ‏ماضی میں بھیCTD کے کئی الزامات غلط ثابت ہوئے ہیں۔

سمی نے کہا کہ ایک عورت گزشتہ 1 ماہ سے جسمانی ریمانڈ پر زیر حراست ہے ‏اس دوران دباؤ میں لاکر ماہل بلوچ سے کچھ بھی کہلواا کر اعترافی بیان دلوائی جاسکتی ہے۔ ‏انسانی حقوق کے ادارے اس معاملے پر تفتیش کرکے انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں۔