پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے دو نوجوان بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ گئے جبکہ کوہلو سے جبری طور پر لاپتہ اسکول استاد کیلئے طلباء نے اسکول میں احتجاج کیا۔
گذشتہ سال 28 دسمبر کوئٹہ سمنگلی روڈ سے حراست بعد جبری پر لاپتہ رہنے والے لسبیلہ یونیورسٹی کا طالبعلم عبدالقدوس قمبرانی آج بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا۔ اسی طرح رواں سال 15 جنوری کو کوئٹہ سے حراست بعد لاپتہ ہونے والا ایک اور طالب علم عبدالخالق بلوچ بھی آج بازیاب ہوگیا۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات اکثر رپورٹ ہوتے ہیں جن میں سے چند ہی افراد بازیاب ہوکر واپس آجاتے ہیں جبکہ کچھ افراد کو سی ٹی ڈی کی جانب سے منظر عام پر لاکر دہشت گردی کے الزامات میں گرفتاری کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے-
دریں اثناء کوہلو میں فوجی آپریشن کے دؤران حراست بعد جبری طور پر لاپتہ اسکول استاد جاوید مری کی بازیابی کے لئے اسکول کے طلباء نے احتجاج ریکارڈ کیا۔
رواں ماہ 10 مارچ کو پاکستانی سیکورٹی فورسز نے کوہلو جنتلی کے علاقے کلی جمال ہان زئی میں فوجی آپریشن کے دؤران گھروں کی تلاشی لی اور بشکیا خان ولد مہران، ستار ولد رب نواز مری، استاد محمد جاوید ولد رسول بخش مری، مغل ولد درا، موران ولد درا، مولوی غلام بخش ولد درا، لعل ولد میر حمد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا-
کوہلو آپریشن میں جبری گمشدگی کےشکار و بعد ازاں بازیاب ہونے والے ستار مری نے اپنے بازیابی کے بعد سوشل میڈیا پر جاری وڈیو بیان میں الزام عائد کیا کہ صوبائی وزیر نصیب اللہ مری کے کہنے پر فورسز نے انکے گھروں پر چھاپہ مارکر بلوچ استاد جاوید اور خاندان کے دیگر افراد کو جبری لاپتہ کروایا ہے-
ستار مری نے حکومت و انسانی حقوق کے اداروں سے کوہلو جنتلی سے صوبائی وزیر کے کہنے پر جبری گمشدگی کے شکار بننے والے خاندان کو منظرعام پر لانے اور بازیاب کرانے کا مطالبہ کیا ہے-