اپوزیشن میں سبھی فرشتے ہیں
تحریر: برکت مری
دی بلوچستان پوسٹ
جب کوئی سیاسی لیڈر اپنی مغرورانہ پالیسیوں کی وجہ سے الیکشن میں ہار کر یا گرایا جاتاہے، تو وہ اپوزیشن میں جب بیٹھتا ہے تو انکی جدوجہد انتخابی منشور ہر جلسے جلوسوں میں مظلوم عوام پر ہونے والے ظلم میرٹ کی پائمالی سیاسی میدان میں نہ برابری ساحل وسائل معدنیات پر وفاقی قبضہ گیری قومی ناراضگی لاپتہ افراد کی بازیابی سہولیات بنیادی ضروریات کے نہ ملنے کے نعرے ہر غریب کے گھر جانا ان کے ساتھ فوٹو کھینچنا ان سے گھل ملنا ایسی جگہوں دیوان میں اٹھنے بیٹھنے کا انداز بنانے سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے تمام اداکاری بخوبی نبھاتے ہیں۔
ایک انقلابی لیڈر کی صورت میں جیسے قومی تحریک چلاتے ہیں ایسا لگتا ہے سبھی درد قوم کے ان کے جگر میں لاوا کی طرح اگل رہے ہیں۔ یوں احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر قوم کو اپنی شناخت و بقا عزیز ہے میرے ساتھ چلیں ورنہ وہ دن دور نہیں قومی شناخت قومی تشخص کو خطرہ لاحق ہوسکتی ہیں۔
ٹریژری بنچ پر جو بیٹھے ہیں، وہ پورے قوم کا سودا لگا رہے ہیں انکو روکنا ہے اور یہی کہتا ہے کہ گزشتہ دور میں میں حکومت میں تھا مجھے قومی نمائندگی کرنے نہیں دیا گیا، میرے ہر منصوبے پر پابندیاں لگا کر میرے راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، آخری سانس تک میں اپنے قوم کیلئے اسمبلی فورم پر لڑتا رہا اسی وجہ سے مقتدر قوتوں کو میں پسند نہ آیا۔ مجھے ایوان بالا سے نکال دیا گیا، لیکن اب کسی سے ڈرنے والا نہیں ہوں انکے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قوم کی حقوق چھین کر لیں گے وغیرہ وغیرہ۔
یہی تاثر پیدا کرنے کی کوشش ہر مجلس جلسہ فاتح خوانی ہر تقریب سے کریں گے کہ کسی کا کوئی مسئلہ حل ہوگا میرے ہاں میرے جماعت میں ہی حل ہوگا عوام میرا ساتھ دے پھر دیکھتے ہیں کہ میں کیا کرسکتا ہوں۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ ستر سالوں سے زیادہ عرصہ چلا آرہا ہے اور لوگوں کو باور کروانے کی کوشش کرے گی کامیابی کے بعد جو بھی ہمیں ملے گی منصفانہ طور پر تقسیم کریں گے کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی اس مرتبہ مراعات صرف وہی کارکنان کو ملے گی جو پارٹی کیلئے کام کرے گا اقتدار کے وقت اس شخص کو کچھ نہیں ملے گا جس نے پارٹی کیلئے کام نہیں کیا ہو۔
میری سیاست کا محور غریب مظلوم عوام انکی خوشحال زندگی ہے لیکن اقتدار کے بعد سبھی نعرے ہی لگتے ہیں بالآخر وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے کئی جذباتی آرڈ و جہادی ورکر پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور یہی آرڈ جہادی ورکر ہر گھر ہر مجلس میں کہتے پھرتے ہیں کہ کوئی لیڈر ہے تو پلانی ہے اگر کسی کا مسلہ حل ہوگا انہیں ہر چیز میرٹ پر ملے گی تو پلان لیڈر کی وجہ سے یہی آرڈ جہادی ورکر بہت سے لوگوں کو پارٹی کیلئے تیار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ویسے دیکھا جائے پارٹیوں میں دو طبقے کے کارکن ہوتے ہیں ایک جزباتی آرڈ ورکر دوسرے کاٹن شاٹن چشمے والے جو صرف حکم دینے کیلئے نظر آتے ہیں۔ جھنڈا لگانے میں کبھی نظر نہیں آتے ہیں جو قربانیاں آرڈ ورکر پارٹی کیلئے دیتے ہیں کاٹن شاٹن طبقہ حتیٰ کہ انکے بیوی بچے ووٹ دینے کو بھی گوارا نہیں کرتے ہیں۔ اپنے پارٹی کے پولنگ پر بھی نہیں جا تے ہیں۔
اگر پارٹی کو ووٹ ملتے ہیں انہی آرڈ ورکروں کی وجہ سے ملتی ہے یہی آرڈ ورکر اپنے بیوی بچوں کو ناجائز نام دے کر پارٹی کی کامیابی کیلئے کسی بھی گناہ سے دریغ نہیں کریں گے۔ تمام تر محنت مشقت کے بعد جب پارٹی اقتدار حاصل کرلیتی ہے تو ایک سال کے اندر رویوں میں زرہ بھر تبدیل نہیں آتی اس لئے کہ ایک سال میں حاصل اقتدار میں کسی قسم کا کوئی مراعات کوئی پروجیکٹ کوئی منصوبہ کوئی بجٹ میسر نہیں ہے۔
جب یوں چلتے چلتے بجٹ پاس ہوتی ہے اسکیموں کی منظور فنڈز ریلیزنگ شروع ہوجاتی ہے جب پیسے کی رنگ لگنے لگتی ہے اچھے اچھوں کی نیتیں کھوٹ ہو جاتی ہیں۔ پھر قوم پرستی یکدم کنبہ پرستی کی جانب گامزن ہوجاتے ہیں۔ ہر ٹھیکے مراعات عیاشیاں کنبہ تک محدود ہوتے ہیں نیتوں میں صرف پیسہ بینک بیلنس کی پالیسی رچ بس جاتی ہے۔
قوم پرستی کے دعوے ٹھیکیداری کے گرد گھومنے لگتے ہی۔ پلان ٹھیکہ اسکیم کی فیصد اتنا پلان کی اتنا پھر آرڈ ورکر جنہوں چاک و چون میں اپنے کپڑے گنواے وہ میر سے ملنے کے انتظار میں لائن میں کھڑے ہوکر پانچ سال تک ملنے کا نمبر نہیں ملتا ہے۔
پھر لیڈروں کے رویوں میں تبدیلی آجاتی ہے وہ ان جزباتی زندہ باد مردہ باد آرڈ ورکر کے ساتھ کیا وعدہ دعوا کہ اب کاٹن شاٹن نہیں پارٹی کے مراعات کام کرنے والوں کو ملے گی دور کی بات ان سے ملاقات بھی گوارا مشکل بن جاتا ہے۔
اقتدار کے دوران اسی آرڈ ورکر کے پیدا کردہ پارٹی ووٹر اسی آرڈ ورکر کو پیغام کا ذریعہ بنا کر اپنے مسائل حل کرنے کو سہارا سمجھتے ہیں کیونکہ پارٹی کے سبزباغ دکھانے والوں میں ایک طبقہ ورکر ہی ہوتے ہیں جو ہر گلی کوچے چوراہے پر پارٹی کی پرچار کرتے ہیں۔
جب پارٹیوں سے ناراض ہوکر چلے جانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اس ٹوٹے بند کو کاٹن والے روک بھی نہیں سکتے ہیں وہ اپنے لمبے چوڑے ٹھیکے مراعات کے گرد گھومتے ہیں وہ اپنی مراعات گاڑیوں کو دیکھ کر کارکنوں و ووٹروں کو قابل عزت دینے نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ اگر پارٹیوں کو توانا آواز ملی ہے وہ غریب متوسط طبقے آرڈ ورکر انہی چھوٹے طبقوں سے ملی ہے کاٹن شاٹن صرف وقت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں