انڈین فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ انڈین سرحد پر چینی فوج کی دراندازی سرحدی کشیدگی میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے جس سے ’بڑا تنازع‘ جنم لے سکتا ہے۔
جنرل منوج پانڈے نے کہا کہ اس وقت چین اور امریکہ کے درمیان طاقت کی دشمنی دہلی اور بیجنگ کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو متاثر کر رہی ہے۔ انہوں نے پیپلزلبریشن آرمی (پی ایل اے) کو انڈیا کے ساتھ سرحدی معاہدوں کی خلاف ورزی کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا۔
پیر کو ساوتری بائی پھلے پونہ یونیورسٹی اور نئی دہلی میں واقع سینٹر فار چائنا اینالسس اینڈ سٹریٹجی کے زیر اہتمام ’چین کا عروج اور دنیا پر اس کے مضمرات‘ کے موضوع پر جنرل پانڈے کی اہم تقریر کے دوران انڈیا اور چین کے درمیان جاری سرحدی تنازعے پر اب تک کا سب سے بڑا بیان سامنے آیا۔
مشرقی لداخ کی سرحدوں پر انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے انڈین فوج کے سربراہ نے کہا، ’ایل اے سی کے بارے میں مختلف تاثرات‘ کے باعث فوجوں کے درمیان سرحدی علاقوں پر تنازعات اور متنازع دعوے بدستور موجود ہیں۔
جنرل پانڈے نے کہا، ’خلاف ورزیاں کشیدگی میں اضافے کا ایک ممکنہ محرک بنی ہوئی ہیں۔ اس لیے بارڈر منیجمنٹ کی خاطر انتہائی سخت نگرانی کی ضرورت ہے کیونکہ بارڈر منیجمنٹ میں خامیاں بہت بڑے تنازعات کا باعث بن سکتی ہیں۔‘
جوہری ہتھیاروں سے لیس ان دو جنوبی ایشیائی ممالک کے سرحدی تنازعات کی تاریخ دہائیوں پرانی ہے۔ یہ تین سال سے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے نام سے جانی جانے والی اپنی سرحد پر کشیدگی کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
دریاؤں، جھیلوں اور ناہموار پہاڑوں کے ساتھ دور افتادہ علاقے میں کشیدگی، جھڑپوں میں بدل گئی ہے۔ جون 2020 میں وادی گلوان میں ایک بڑی خونریز جنگ بھی ہوئی تھی جہاں دونوں فوجوں کے جوانوں کے درمیان تصادم ہوا، جس میں20 انڈین اور چار چینی فوجیوں کی موت ہوئی۔
جنرل پانڈے نے کہا کہ ایل اے سی پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے بنائے گئے 1993، 1996، 2005 اور 2013 کے چار معاہدوں اور پروٹوکول کی پی ایل اے کی جانب سے خلاف ورزی سے انڈین فوج کے خدشات پیدا ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا، ’انڈین فوج نے شمالی سرحدوں پر چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی افواج کو دوبارہ متوازن کیا ہے اور ’ہمارے پاس کافی ذخائر ہیں اور ہم کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا، ’ہماری تیاریاں بہترین ہیں اور فوج ہمارے دعوؤں کے تقدس کو یقینی بناتے ہوئے پی ایل اے کے ساتھ مضبوط، ثابت قدمی اور پختہ انداز میں نمٹ رہی ہے۔‘
کشیدگی کے پیش نظر انڈیا کی تیاریوں کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فوج نے اہم بنیادی ڈھانچے اور لاجسٹک ضروریات میں اضافہ کیا ہے – خاص طور پر فارورڈ علاقوں کی سڑکیں، ہیلی پیڈ اور فوجیوں کے رہنے کی جگہ۔
اپنے ایک اور اہم تبصرے میں جنرل پانڈے نے کہا کہ چین جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کے پیش نظر سیاسی، اقتصادی، تکنیکی اور عسکری طاقت کے طور پر اپنے عروج کے ساتھ نئے عالمی نظام میں لیڈر بننے کا ارادہ رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیجنگ امریکہ کو’عالمی نیٹ سکیورٹی فراہم کنندہ‘ کے طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ’بحیرہ جنوبی چین میں اس کی مداخلت، سمندری دعوؤں پر بین الاقوامی ٹریبونل کے فیصلوں کو مسترد کرنا، آبنائے تائیوان میں سرگرمیاں اور ایل اے سی پر کارروائیوں سے یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ چین کی جانب سے ’بین الاقوامی قوانین پر مبنی نظام‘ کی تشریح ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ پر منحصر ہے۔