پنجابی، سرداری نظام اور بلوچ
تحریر: ریاض جمالی
دی بلوچستان پوسٹ
یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں ہے کہ بلوچ قوم کی سب سے بڑی کمزوری انگریزوں کی بنائی گئی نوابی، مِیری اور سرداری نظام ہے اور پنجابی نے بھی جعلی سرداری نظام سے ہمیشہ بھرپور فائدہ اُٹھایا کیونکہ قبائیلی سرداری نظام سے عام بلوچ عوام ڈاریکٹ دُشمن کا غلام بن جاتا ہے۔ 28 مارچ 1948 میں بلوچ قوم کو پنجابی کے غلام بنانے میں بھی انھی قبائیلی سردار اور میروں کا ہاتھ ہے۔ اسی سرداری اور نوابی سِسٹم سے عظیم بلوچ قوم قبائل میں تقسیم در تقیسم ہے جِس کا فائدہ صِرف اور خالصتاََ دُشمن کو ہوتا ہے کیوں کہ قوم کو غلام بنانے کیلئے دشمن کو زیادہ کُچھ نہیں کرنا پڑتا ہے بس عبدلرحمان کھتران، یار محمد رِند، تاج جمالی اور زُلفقار مگسی جیسے ایک سردار کو ڈر یا لالچ دے کر خریدتا یے تو ساری برادری یا قبائل ڈاریکٹ زہنی غلام بن جاتا ہے۔
1957-58 میں بابو نوروز کے خلاف دشمن کا جنگ ہو یا 1973-76 تک بابا خیربکش مری اور عطا اللہ مینگل کے خلاف جنگ ، دشمن جان چُکا ہے کہ یہ قوم نواب، سردار اور میروں کے غلام ہیں۔ اس لئے مری بلوچ کی مدد کیلئے نزدیک کے سلیمانی بلوچ :- لیغاری، کھتران، بُگٹی، جمالی، مگسی، رِند، کھوسہ، جھکرانی۔۔۔۔ اور مزاری جو اپنے آپ کو میر چاکر کے اولاد سمجھتے ہیں ان لوگوں کو زرہ بھی غیرت اور شرم نہیں آئی کہ پنجابی کے خلاف اپنے نزدیکی بلوچ بھائی، مری بلوچ قبائل کا ساتھ دیتے کیونکہ ان قبائل کے سردار تو بھٹو کے جوتے جو چاٹ رہے تھے۔
اس طرع بلوچستان کی آزادی کے جتنے بھی گوریلہ جنگ تھے وہ ہمیشہ ہی علاقوں تک محدود رہے، دوسری طرف دشمن نے عبدلرحمان کھتران، لسبیلہ کے جام، یار محمد رند، زلفقار مگسی اور طفر اللہ جمالی جیسے بُہت سے سردار، نواب اور میروں کو بلوچ معاشرے میں سپورٹ کرنا جاری رکھا۔ یار محمد رند جو بولان کے نزدیکی علاقے ڈھاڈر کے جعلی سردار ہیں جنرل مُشرف کا فیوریٹ سردار تھا اور اُس کو سرداری نظام کو پنجابی فوج کے مطابق برقرار رکھنے پر سرکاری آوارڈ بھی ملا کیوں کہ اس نے اپنے رند ٹَکر کو بولان میں راجی لشکر بی ایل اے کے خلاف کھڑا کیا تھا۔ آج بانُک زرینہ مری، بانُک رشیدہ زہری اور بانُک ماھُل بلوچ سے کئی بلوچ عورتوں کو فوج گھر سے اُٹھا کر غائب کرتا ہے اور یہ جُھوٹے اور بُزدل سردار اور میر بند کمروں میں شرم کے مارے روتے ہونگے یا بے غیرتی میں ہنستے ہونگے کیونکہ اے بے خبر تو ہو نہیں سکتے۔
شاہد آپ محروم ظفر اللہ جمالی کے نام سے ناراض ہونگے لیکن آپ کو معلوم ہو کہ پولیٹکل سائنس میں جس لیڈر نے کوئی بڑے عہدے میں کام کیا ہو بعد میں وہ اپنے عزت اور وقار میں چھوٹے منسٹری کیلئے فٹ نہیں ہوتے۔ ظفراللہ جمالی تو وہ بندے تھے کہ مشرف کے دَور میں فوج کے آشیرباد میں پاکستان کا وزیر اعظم بنے بعد میں اپنے پیٹ کیلئے ہاکی کا وزیر بنے حالانکہ اُن کو نواب اکبر بُگٹی کے شھادت کے بعد مشرف کہ کابینہ میں کام نہیں کرنا چائیے تھا بلکہ اپنے جمالی اور قریب کے مگسی ءُ جھکرانی براداری سمیت بلوچوں کو بلوچستان کی آزادی کیلئے اکھٹا کرنا چائیے تھا۔
جنرل مُشرف ہمیشہ کہتا تھا کہ سوائے تین سرداروں کے بلوچستان کے باقی سارے سردار ہم نے پیسّوں سے خرید لیے اور یہ ہمارے ہیں لوگ ہیں، اِن میں سے تو کوئی آزاد بلوچستان کی بات نہیں کرتا۔ ہم ان تین سرداروں کو ایسے تباہ کرینگے کہ ان کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ کیسے مارے گئے ہو ، ویسے مشرف یہ باتیں اس لئے کرتا تھا کہ اُن کو امریکہ اور نیٹو کی طرف سے بے تحاشہ فوجی اور معشی امداد جو مِل رہا تھا کیونکہ گوریلہ جنگ کے سامنے سوت روس اور امریکہ بھی نہیں ٹِک پائے تو پاکستان جیسے بھیکاری ملک کی کوئی اوقات ہی نہیں تھا کہ پشتون اور بلوچ قوم سے گوریلہ جنگ لڑ سکتا۔ ویسے مشرف نے سوچا کہ یہ جنگ صِرف دو اضلاعوں تک محدود ہوگی۔ پاکستانی فوج نے جب جنگ کی تیاری کی تو اس کو “Miltary Operation in Kohlu & Dera Bugti Region” کا نام دیا۔ اگر آپ پاکستانی آرمی کے ویبسائیٹ میں جائے تو وہاں بُہت سے جھوٹے لوکل جنگی آپریشن جیسے اپریشن راہِ نجات، خیبر I، خیبر II، رَدالفساد، ضربِ یہ اور ضرب وہ تو ملینگے پر بلوچستان کے نام پر ایک ہی آپریشن ہے جِس کے حساب سے چھ مہینے کے اندر ڈیرہ بُگٹی اور کوھلو سے ان دو سرداروں کو ختم کیا جائے گا۔
اگر دیکھا جائے تو پاکستانی آرمی نے امریکہ اور نیٹو کے اسلحہ سے اس جنگ میں زبردست تیاری کی ہوئی تھی، نواب بُگٹی کو ختم کرنے کیلئے کلپر اور غلام قادر مسوری کو فل سپورٹ کیا گیا، نواب اکبر بُگٹی کے اپنے باڈی گارڈ میں بنگان بُگٹی ، سید بُگٹی اور دیگر لوگ پہلے سے فوج میں ملے ہوئے تھے جنوں نے نواب بُگٹی کو شھید کروایا، شمال سے فضل خان شمبانی، جنوب سے وڈیر محمد بخش موندرانی نے جنگ کے پہلے ہی ہفتے میں نواب بُگٹی کو دھوکہ دیا، نواب بُگٹی کے خاندان کو چون چون کر شھید کیا گیا، یہاں تک کے عورتوں کو نہیں بخشا گیا، براھمدگ بُگٹی کے ھمشیرہ کو بیٹی سمیت بالوں کو گھیسٹ گھسیٹ کر کراچی میں شھید کیا گیا۔ بُگٹی قبائل اور ڈیرہ بُگٹی کے عام عوام نظریاتی کچے تھے ان لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ہم کیوں اور کِس لئے لڑ ریے ہیں؟ کیونکہ وہاں نواب بُگٹی نے ہمیشہ ہی سے وڈیروں پر بھروسہ کیا ہوا تھا۔
البتہ اس جنگ میں ایسا نہیں ہوا جو پاکستانی فوج نے چھ مہینے کی جنگی منصوبہ بنایا تھا پاکستانی فوج کو یہ جنگ مہنگا پڑگیا جیسے کہ 1957 میں بابو نوروز اور 1973-76 میں نواب مری کے رھشُونی میں بلوچ آزادی جنگ چند سالوں میں صرف کُچھ علاقوں تک محدور رہی ہو حالانکہ نواب اکبر بُگٹی اور شھید بالاچ مری کے رھشُونی میں شروع کی ہوئی بلوچستان کی آزادی جنگ کو بی ایس او کے نظریات سے سرشار بلوچ تعلیمی یافتہ لوگوں نے نوشکی، چاغی تا گْوادر، رکشان تا مکران، پورے بلوچستان کے کونے کونے تک پھیلایا۔ دژمن کی ظُلم، درندگی اور جبر نے بلوچ معاشرے کے اندر ریاستِ پاکستان کے خلاف بے انتہا نفرت پیدا کردی جو نفرت بلوچستان کی آزادی کی چراغ کی طرع بلوچ قوم کو آزادی کی طرف لے جا رہی ہے۔
آخر میں کہوں گا کہ بلوچ قوم کا اصل دشمن ہمارے بلوچ معاشرے میں نواب، میر اور سردار ہیں جو کبھی نہیں چائیں گے کہ بلوچ قوم کیلئے یک آزاد، جمہوری اور سیکولر ملک آزاد بلوچستان بن جائے۔ بلوچ قوم کو سب سے پہلے ان جھوٹے سرداروں کے خلاف ہتھیار اُٹھنا چائیے یا کم از کم ان لوگوں سے نفرت تو کر سکتے ہیں۔ اللہ بلوچ قوم کو یکمُشت کرے اور بلوچستان ہر قِسم کی غلامی سے آزاد ہوجائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں