پبلک لائبریری تربت کی بندش، علم کا راستہ روکنے کی کوشش
تحریر: اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یونیورسٹی کو پبلک لائبریری میں جگہ دینے کا فیصلہ ہی غلط تھا یہ کام جس نے کیا ہے اس نے تیاری میں مصروف طلبہ و طالبات کے ساتھ سنگین جرم کیا ہے اس کا مواخذہ کیا جائے یہ کہنا ہے سماجی کارکن اور طالب علم عزیز حاصل کا جو مقابلے کے امتحانات کی تیاری کررہے تھے مگر تربت میں پبلک لائبریری بند ہونے کے سبب اس کی تیاری اب متاثر ہے، یہ صرف عزیز حاصل کا مسلہ نہیں ہے بلکہ تربت میں کافی ایسے طلبہ و طالبات ملیں گے جو پبلک لائبریری میں بیٹھ کر پڑھائی کرتے اور خود کو صوبائی اور وفاقی سطح کے مقابلہ کے امتحانات کے ساتھ ساتھ اسکول اور کالجز کے امتحانات کے لیے تیاری کرتے تھے۔
پبلک لائبریری تربت جہاں روزانہ ڈیڑھ سو کے قریب طلبہ و طالبات پڑھائی اور تیاری کے لیے آتے تھے اسے فروری 2020 کو پہلی بار کووڈ کے سبب بند کردیا گیا، طلبہ کی احتجاج کے بعد لائبریری کو ستمبر 2020 میں کھول دیا گیا لیکن مختصر عرصے کے بعد نومبر 2020 کو اسے دوبارہ بند کیا گیا جس کا کوئی جواز نہیں بتایا گیا۔
اس سے قبل 2017 کو پبلک لائبریری کی چاردیواری کے اندر لائبریری کی آفسز کو کلاس رومز بناکر یہاں پر تربت یونیورسٹی نے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ شفٹ کردی تاہم جب یونیورسٹی اپنی اصل عمارت کی تکمیل کے بعد کرایے کی عارضی عمارت سے شفٹ ہوگئی تو کیمسٹری کی کلاسز بھی لائبریری کے بجائے یونیورسٹی ہی میں لگنے لگیں۔
پڑھائی کے خواہش مند طلبہ و طالبات کے لیے ابھی اور سخت مراحل باقی تھے تربت یونیورسٹی نے جب 2017 کو لا ڈیپارٹمنٹ کا آغاز کیا تو اس کا افتتاح یونیورسٹی کی عمارت میں کرنے کے بجائے ایک دفعہ پھر پبلک لائبریری ہی میں کیا گیا، عزیز حاصل کے مطابق یونیورسٹی کی لاء ڈیپارٹمنٹ کا موقف یہ تھا کہ پبلک لائبریری سے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت، سیشن کورٹ اور تربت ہائی کورٹ کی برانچ نزدیک ہے اس لیے طلبہ کی سہولت اور لیکچررز کی آسانی کے لیے لاء ڈیپارٹمنٹ کا پبلک لائبریری پر قبضہ ضروری تھا۔
پبلک لائبریری میں مقابلہ کے امتحانات کی تیاری میں مصروف رہنے والی ماہ گنج (فرضی نام) نے لوک سجاگ کو بتایا کہ لائبریری کی عمارت پر قبضہ ضلعی انتظامیہ یا یونیورسٹی انتظامیہ نے نہیں کیا بدقسمتی سے بلوچستان ہائی کورٹ نے ہی یہ ممکن بنایا کیوں کہ لاء ڈیپارٹمنٹ کا افتتاح پبلک لائبریری کے اندر بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جسٹس نے کی تھی اور ان کے ساتھ اس وقت کے صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی تھے۔ ماہ گنج سمجھتی ہیں کہ یہ عمل طلبہ و طالبات کی پڑھائی روکنا اور انہیں بے جا طور پر ڈسٹرب کرنا تھا ان کے مطابق جب یہاں پر لاء ڈیپارٹمنٹ شروع کیا گیا تو عام پڑھنے والوں کے لیے سختیاں شروع ہوئیں، ان کو شناختی علامت کے طور پر ایک کارڈ الاٹ کیا گیا اگر کسی دن کارڈ ساتھ لانا بھول گئے چاہے دس کلومیٹر دور سے کیوں نہ آئے ہوں لائبریری کی عمارت میں داخل نہیں ہونے دیا گیا اس کے بعد مختلف بہانوں سے لائبریری پر قبضہ مستحکم کی گئی اور پھر اسے بند کیا گیا۔
پبلک لائبریری کو ایک دفعہ پھر یکم جنوری 2021 کو تربت یونیورسٹی نے ایک نوٹیفکیشن کے تحت ریفیئرنگ کے لیے بند کیا، عزیز حاصل کے مطابق اس دفعہ یونیورسٹی کا رویہ پورا قبضہ جمانے کا تھا تبہی لائبریری کی تمام فرنیچر اور کرسیاں نکال کر باہر دھوپ میں رکھ دی گئیں اور تمام کتابیں جمنازیم میں پھینک دیں جو آج تک وہاں پڑی ہوئی ہیں اور بیشتر کتابوں کو نقصان بھی پہنچا ہے۔
کیچ کوئٹہ کے بعد آبادی کے لحاظ سے بلوچستان کا دوسرا بڑا ضلع ہے، پورے ضلع میں واحد سرکاری پبلک لائبریری تربت شھر میں ہے۔ ضلع کیچ میں پڑھائی کا رجحان دوسرے اضلاع کی نسبت مثالی ہے لیکن بد قسمتی سے یہاں طلبہ کی پڑھائی کے لیے کوئی مناسب انتظامات نہیں کیے گئے ہیں۔ پبلک لائبریری کی دوسری دفعہ بندش کا جواز اس کی چھت پر کریک اور دراڈ بتایا گیا، ان مرمت کے لیے سٹی پروجیکٹ سے ڑھائی کروڑ روپے مختص کیے گئے، ان میں ریفئرنگ کے ساتھ لائبریری کی آرائش، فرنیچر، چار دیواری اور الگ گیٹ لگانا شامل تھا۔
لوک سجاگ نے لائبریری پر تربت یونیورسٹی کی ملکیت یا اس پر قبضہ کی قانونی حیثیت جاننے کے لیے تربت یونیورسٹی کے ڈائریکٹر انفارمیشن سے رابطہ کیا انہوں نے لائبریری کے مسلے پر رجسٹرار سے بات کرنے کو کہا جب رجسٹرار سے رابطہ کرکے معلومات لینے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے اس معاملے میں وائس چانسلر کی رائے لینے تک بات سے انکار کیا اور بتایا کہ وی سی اس وقت ملک سے باہر ہیں۔
ضلع کیچ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عقیل کریم نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے لائبریری کی آرائش وغیرہ مکمل کی ہے اس کے لیے اب فرنیچر کی خریداری باقی ہے جونہی فرنیچر خریدگی ہوگی اسے دوبارہ کھول دیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ لائبریری کو طلبہ کے تحفظ کے لیے بند کیا گیا تھا لیکن اسے خامخواہ ایک ایشو بنادیا گیا ہے۔
طلبہ و طالبات نے پبلک لائبریری کی بندش کے خلاف پر زور آواز بلند کی ہے اس بار یہ آواز اور زیادہ گونج رہی ہے، طلبہ تنظیم بی ایس او پجار بھی لائبریری کی بندش کے خلاف کئی دفعہ احتجاج کرچکی ہے، دسمبر 2022 کو ڈپٹی کمشنر کیچ نے لائبریری کی کلر اور ریفرنگ کے بعد اسے ایک ہفتے کے اندر کھولنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس ایک ہفتے کو اب دس ہفتے ہونے کو ہیں لائبریری میں پڑھائی اور تیاری کے خوگر طالب علم راہ تک رہے ہیں کہ اسے کب کھولا جائے گا مگر انتظامیہ کے پاس اس کی ری اوپننگ کا ٹائم فریم نہیں ہے۔
ماہر تعلیم اور ایجوکیشن میں ایم فل اسکالر شاری بلوچ کہتی ہیں کہ لائبریری ہر چھوٹے بڑے شھر میں ایک سہولت کے طور موجود ہونی چاہیے کیونکہ اکثر گھروں میں پڑھنے کا ماحول یا امتحانات میں تیاری کے لیے سہولت موجود نہیں ہوتی، لائبریری میں پڑھنے اور سیکھنے کا ایک ماحول بنتا ہے وہاں پڑھنے کے ساتھ لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے اور ایک دوسرے کے تجربے سے سیکھ بھی سکتے ہیں۔
شاری بلوچ کے نزدیک لائبریری کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے اہم ادارے کا اس پر قبضہ ہی نامناسب ہے، وہ تجویز دیتی ہیں کہ لا ڈیپارٹمنٹ کو یونیورسٹی کے اندر جگہ دی جائے۔
ریکارڈ کے مطابق لائبریری کی بندش سے ایک سال پہلے یہاں تیاری کرنے والے آٹھ نوجوان پبلک سروس کمیشن کے زریعے انگلش لیکچرر کے امتحان میں نمایاں پوزیشن کے ساتھ کامیاب ہوئے تھے۔
عزیز حاصل مقابلے کے امتحانات میں کامیاب طلبہ کی تعداد زیادہ بتاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہر سال سول سروسز کے امتحانات میں مختلف نوجوان کامیاب ہوکر صوبہ بھر کے انتظامی امور میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
کیچ جیسی گنجان آبادی والے ضلع میں اس کی ضرورت ہے کہ لائبریری کی تعداد بڑھائی جائے اور علم کے شوقین نوجوانوں کو مناسب سہولت دی جائے لیکن ایسا کرنے کے بجائے جو سہولت اپنی ناکافی وسائل کے ساتھ پہلے سے موجود ہے ان کو ہی بند کرنا ایسے درجنوں نوجوانوں کے ساتھ ناانصافی ہے جن کی دسترس میں صرف یہی ایک لائبریری تھی۔
بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں