حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کو بکتر بند گاڑی میں جوڈیشل مجسٹریٹ پسنی کی عدالت میں پیش کردیا گیا۔ حق دو تحریک کے کونسلران سے ملاقات کرنے نہیں دیا گیا۔
جوڈیشل لاک اپ سے کارکنوں کے لیئے پیغام میں کہا کہ کچھ قوتوں کی خواہش اور کوشش ہے کہ مجھے راستے سے ہٹایا جائے کیوں کہ عوامی وسیاسی میدان میں مقابلے میں ناکامی کے بعد نا معلوم قوتوں کے تعاون سے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ جعلی مقدمات کا مقابلہ قانونی اور سیاسی میدان میں کریں گے۔
تفصیلات کے مطابق حق دو تحریک کے سربراہ مولاناہدایت الرحمن بلوچ کو جوڈیشل مجسٹریٹ پسنی کی عدالت میں پیش کردیا گیا، پولیس اور اے ٹی ایف کی سخت سیکورٹی میں مولاناہدایت الرحمن بلوچ کو بکتربند گاڑی کے ذریعے پسنی لایا گیا۔
اس سلسلے میں ذرائع نے بتایا مولاناہدایت الرحمن بلوچ کے خلاف 2008ءمیں روڈ بلاک، کارسرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج ہے جبکہ دوسرا نامزد ملزم جماعت اسلامی پسنی کے کارکن ہے جو کہ انتقال کرچکا ہے۔ پیشی کے وقت کورٹ کے باہر حق دو تحریک کے کونسلران بھی موجود تھے لیکن پولیس کی جانب سے انھیں ملاقات کرنے نہیں دیا گیا۔
اس موقع پر حق دو تحریک کے کونسلران نے کہا کہ ہم پرامن ہیں اور ذمہ دار کونسلر ہیں لیکن ہمیں پولیس نے زبردستی روکے رکھا اور مولاناہدایت الرحمان سے ملاقات کرنے نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کو ایک تخریب کار کی طرح بکتر بند گاڑی میں ڈال کر عدالت لایا گیا جو کہ قابل مذمت عمل ہے۔
دوسری جانب حق دو تحریک کے سربراہ مولاناہدایت الرحمن بلوچ نے اپنے جاری پیغام میں کہا کہ حکومت بلوچستان میں ایک مضبوط لابی موجود ہے جس کی کوشش ہے کہ مجھے کبھی رہائی نہ ملے اس کے ساتھ ساتھ کچھ مقامی لیڈران اور فرزندوں کی بھی خواہش اور کوشش یہی ہے کہ مجھے راستے سے ہٹایا جائے کیوں کہ عوامی وسیاسی میدان میں مقابلے میں ناکامی کے بعد نا معلوم قوتوں کے تعاون سے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ وہ حق دو تحریک کے جدوجہد کو دبانا چاہتے ہیں تا کہ ٹرالر مافیا اور یار در مافیا سے ماہانہ کروڑوں کا بھتہ بند نہ ہو۔
مولاناہدایت الرحمن نے مزید بتایاکہ کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ غریب عوام اپنے مسائل کے لئے ہمیشہ میر اور سردار کی بیٹھک اور دیوان کا ہی رخ کریں غریب کا بچہ ہمیشہ غیر تعلیم یافتہ ہی رہے، نوجوان نوکری کے لئے ہمیشہ دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہیں، مریض ہمیشہ ہسپتال کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دیں اور ماوں کے لخت جگر منشیات کا شکار ہو کر زمینی و جسمانی طور پر مفلوج ہو جائیں اور بلوچ فرزند لاپتہ ہوتے رہیں اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ہی ملتی رہیں جبکہ حق دو تحریک ہمیشہ ان مظالم کا خاتمہ چاہتی ہے، اس لئے اس گناہ کے پاداش میں ہم پر بدترین تشدد کر کے چھوٹے مقدمات بنا کر جیل میں ڈالا گیا۔