ماہل بلوچ کا مقدمہ؛ دہشت گرد یا سماجی کارکن؟ – ٹی بی پی رپورٹ

502

ماہل بلوچ کا مقدمہ؛ دہشت گرد یا سماجی کارکن؟
ٹی بی پی فیچر رپورٹ

پاکستان پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے کوئٹہ کے علاقےسیٹلائٹ ٹاؤن سے ایک بلوچ خاتون ماہل بلوچ کو اس الزام میں حراست میں لے لیا کہ وہ مبینہ طور پر بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ا یل ایف) کی ایک خودکش بمبار اور عسکریت پسند تھی۔ بی ایل ایف نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ تاہم، ماہل کے خاندان اور انسانی حقوق کے گروپوں، کارکنوں اور تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور سی ٹی ڈی کا بے گناہ لوگوں کو عسکریت پسند ظاہر کرنے اور انہیں جعلی مقابلوں میں مارنے کی ایک تاریخ ہے۔ ماہل کی “جبری گمشدگی” نے گذشتہ سال کی یادیں تازہ کر دیں، جب سی ٹی ڈی پر دس بلوچ لاپتہ افراد کو زیارت میں ایک جعلی مقابلے میں مارنے کا الزام لگا تھا۔

ماہل بلوچ کی “جبری گمشدگی” نے بڑے پیمانے پر احتجاج و بے چینی کے ایک سلسلے کو جنم دیا ہے۔ سیاسی کارکنوں، طلباء رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور پاکستانی سیکورٹی فورسز کو اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے “وحشیانہ” اور “غیر انسانی” حربے استعمال کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کارکنوں نے سوشل میڈیا پر ٹرینڈز بھی چلائے اور ماہل بلوچ کی بحفاظت بازیابی کے لیے احتجاج بھی کیا جارہا ہے۔

سی ٹی ڈی کا موقف کیا ہے؟

کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے ماہل بلوچ کی حراست کے حوالے سے ایک میڈیا بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں انٹیلی جنس اطلاع ملی تھی کہ وہ کوئٹہ میں ایک “حساس” مقام پر خودکش حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔

ماہل بلوچ کے خلاف سی ٹی ڈی اسٹیشن کوئٹہ میں درج ایف آئی آر کے مطابق اسے سیٹلائٹ ٹاؤن میں ایک عوامی پارک کے قریب پاکر گرفتار کیا گیا۔ مبینہ طور پر وہ ایک لیپ ٹاپ بیگ لے کر جا رہی تھی جس میں خودکش جیکٹ تھا۔ مزید برآں، سی ٹی ڈی حکام کو اس کا شناختی کارڈ اور اس سے 1500 روپے ملے۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا لانگو نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حکومت کو ممکنہ سیکورٹی خطرات سے آگاہ کیا تھا۔ حکومت نے سیکورٹی فورسز کو ہدایت کی کہ وہ فوری کارروائی کریں اور خطرے کا مقابلہ کریں۔

بی ایل ایف کیا کہتا ہے؟

بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے ایک میڈیا بیان جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ ماہل بلوچ انکی تنظیم سے وابستہ نہیں ہے۔ تنظیم نے اس کی “جبری گمشدگی” کی مذمت کی اور کہا کہ اس پر جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں۔

تنظیم کا کہنا تھا کہ ماہل بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے گومازی سے ہے۔ وہ ممتاز بلوچ قوم پرست مرحوم واجہ محمد حسین کی بہو اور انسانی حقوق کونسل بلوچستان کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ کی بھابھی ہیں۔ بی ایل ایف نے کہا کہ مؤخر الذکر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتا رہا ہے۔ تنظیم نے کہا کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز نے ماہل بلوچ کو اس کے خاندان پر دباؤ ڈالنے کے لیے حراست میں لیا ہے۔

بی ایل ایف نے مزید کہا کہ سیکورٹی فورسز نے ان کے خاندان کو دھمکیاں دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی۔ ماہل بلوچ، دو بچوں کی ماں، اور اس کا خاندان 2018 میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ان کے گھر کو جلانے کے بعد کوئٹہ منتقل ہونے پر مجبور ہوئے تھے۔

تنظیم نے کہا کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز بی ایل ایف کے حقیقی جنگجوؤں کو پکڑنے میں ناکام ہیں اور اس کے بجائے بے گناہ شہریوں کو حراست میں لے کر انہیں عسکریت پسند قرار دے رہے ہیں۔ تنظیم نے مزید کہا کہ وہ ایسا دنیا کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں بڑھتے ہوئے شورش کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں پہلے ہی ماہل بلوچ کے ساتھ ہونے والے سلوک پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں اور بی ایل ایف کا بیان صورتحال کی نزاکت کو مزید بڑھاتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان حکومت کو ان الزامات کی تحقیقات کے لیے فوری کارروائی کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ماہل بلوچ کو قانون کے مطابق منصفانہ ٹرائل دیا جائے۔

ماہل کے خاندان کا کیا کہنا ہے؟

ماہل کے اہل خانہ کے مطابق، ماہل بلوچ کو پارک سے گرفتار نہیں کیا گیا، جیسا کہ سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے، بلکہ انکے گھر سے اس کے دو بچوں سمیت چار دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ماہل کی بھابھی بی بی گل بلوچ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے ان کے گھر کو گھیرے میں لیا اور چوکیدار کو بھی اس وقت زدوکوب کیا گیا، جب اس نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ چاروں گرفتار افراد کو اگلے دن رہا کر دیا گیا۔ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور گھر واپسی کا طویل سفر کرنے کے لیے شہر سے بہت دور چھوڑا گیا۔ بی بی گل نے مزید کہا کہ ماہل بدستور سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہے۔

بی بی گل بلوچ نے بھی سی ٹی ڈی کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ماہل بلوچ کا تعلق کسی “آزادی کے حامی” تنظیم سے نہیں تھا اور نہ ہی وہ خودکش بمبار تھی۔

کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ماہل کی ساس نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے اسے حراست میں لینے سے پہلے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ فورسز نے اسے ایک الگ کمرے میں بند کر کے مارا پیٹا۔ ہم اس کی چیخیں سن سکتے تھے۔ اس نے حکام سے اپیل کی کہ ماہل کے دو بچوں پر رحم کیا جائے اور اسے آزاد کیا جائے۔

عوامی ردعمل

ماہل بلوچ کی “جبری گمشدگی” کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، جس سے عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا۔ سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے واقعے کی مذمت کی اور حکام سے مطالبہ کیا کہ ماہل بلوچ کو بحفاظت رہا کیا جائے۔

سماجی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری نے ٹوئٹر پر ماہل کی “جبری گمشدگی” کی مذمت کی اور کہا کہ کوئٹہ کے موجودہ کور کمانڈر آصف غفور بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سیکورٹی فورسز کو خواتین کو نشانہ بنانے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

انہوں نے سقوط ڈھاکہ کو بھی یاد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج نے بغیر کسی پچھتاوے کے ہزاروں بنگالی خواتین کی عصمت دری کی۔ آج تک ہم ان جنگی جرائم پر شرم سے سر جھکائے ہوئے ہیں۔

مزاری نے مزید کہا کہ بے گناہ شہریوں کو حراست میں لینا اور ان پر تشدد کرنا صرف پاکستانی فوج کے خلاف نفرت کو ہوا دیتا ہے اور لوگوں کو “آزادی کے حامی” تنظیموں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔


بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے ایک میڈیا بیان میں ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ 25 فروری کو کوئٹہ میں بھوک ہڑتال کرے گی۔ بیان میں کہا گیا کہ ایک بے گناہ کا “اغواء” انسانی حقوق کی شدید پامالی اور بلوچستان کے حالات خراب کرنے کی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں۔

ماہل بلوچ کی “جبری گمشدگی” نے تربت شہر میں غم و غصے اور احتجاج کو جنم دیا، جب لوگ اس کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے سڑکوں پر مارچ کیا، کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے خلاف نعرے لگائے گئے اور انصاف کا مطالبہ کیا گیا۔ مظاہرین نے حکومت اور سیکورٹی فورسز کے خلاف اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ان پر الزام لگایا کہ وہ معصوم شہریوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے رہے ہیں اور انہیں عسکریت پسند قرار دے رہے ہیں۔ تربت میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بدستور کشیدہ ہے۔

تجزیہ کاروں، کارکنوں اور بلوچ قوم پرستوں کے مطابق پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارےان بلوچ خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنا رہے ہیں جو قوم پرست سیاست میں سرگرم حصہ لے رہی ہیں اور ان کی قیادت کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی تنازع کی ایک طویل تاریخ ہے اور بلوچ آزادی کی جدوجہد میں خواتین نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس لیئے قانون نافذ کرنے والے ادارے مبینہ طور پر متحرک بلوچ خواتین سیاسی کارکنان کو جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنارہی ہیں تاکہ خواتین سیاست کی راہیں مسدود کی جاسکیں۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ حکمت عملی نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ نقصان دہ بھی ہے کیونکہ یہ صرف خطے میں کشیدگی کو مزید ہوا دینے کا موجب بنے گی۔ بلوچ قوم پرستوں نے اس طرز عمل کو ختم کرنے اور بلوچ خواتین کے اپنی کمیونٹی کے مستقبل کی تشکیل میں کردار کو زیادہ سے زیادہ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) پر ماضی میں ماورائے عدالت قتل اور جعلی مقابلوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ لہٰذا بغیر ٹھوس شواہد کے محض انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ماہل بلوچ کی گرفتاری سی ٹی ڈی کی کارروائیوں کی شفافیت اور منصفانہ ہونے کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتی ہے۔

اس طرح کے اقدامات نہ صرف معصوم لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ پہلے سے غیر مستحکم خطے کو مزید عدم استحکام سے دوچار کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ حکام اور انسانی حقوق کے گروپوں کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ماہل بلوچ کا منصفانہ ٹرائل کیا جائے اور اس کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ یہ ضروری ہے کہ قانون کے مطابق عمل کرتے ہوئے انصاف فراہم کیا جائے، اور سیکورٹی فورسز کو ان کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے۔