بلوچ نیشنل موومنٹ جرمنی چیپٹر کی طرف سے بیئلفیلڈ اور جرمنی کے دارالحکومت برلن میں بلوچستان میں خواتین پر ریاستی تشدد اور ماھل بلوچ کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
ان مظاہروں میں خواتین،بچوں اور جرمنی میں مقیم سرگرم کارکنان نے شرکت کی۔اس موقع پر مظاہرین نے پاکستانی سیکورٹی فورسز کی طرف سے بلوچ سیاسی کارکنان اور ماھل بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف نعرے لگائے۔
بی این ایم جرمنی چیپٹر کے صدر اصغر علی نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستانی فوج اور ایجنسیاں بلوچستان میں سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں۔ہزاروں سیاسی و سماجی کارکنان حتی کہ عام شہری بھی مرضی کے بغیر اور طاقت کے زور پر لاپتہ کیے گئے ہیں اور ہزاروں افراد پاکستانی فورسز نے قتل کر دیئے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا یورپی یونین کے ممالک پاکستان سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔پاکستان بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کر رہا ہے۔خواتین اور بچوں کو بغیر کسی مقدمے کے کئی دنوں تک اذیت گاہوں میں ڈالا جاتا ہے۔رشیدہ زھری کو 13 دنوں تک ٹارچرسیلز میں رکھا۔ سی ٹی ڈی نے ماھل بلوچ کو 17 فروری کو جبری لاپتہ کرنے کے بعد انھیں جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا اور تب سے یہ نہیں معلوم کہ وہ کہاں پر ہیں اور اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا پاکستان بلوچ سیاسی قوتوں کی آواز کو دبانے کے لیے بلوچ خواتین کو نشانہ بنا رہا ہے۔لیکن پاکستان ان ہتھکنڈوں سے اپنے پوشیدہ عزاہم میں ہرگز کامیاب نہیں ہوگا۔یہ اقدامات اپنے قومی مقصد آزاد بلوچستان کے حصول کے لیے بلوچ قوم کے حوصلے اور عزم کو مزید تقویت دیں گے ۔
بلوچ نیشنل موومنٹ جرمنی چیپٹر کے جوائنٹ سیکریٹری شرحسن نے کہا پاکستان بلوچستان میں انسانی حقوق کی گھمبیر پامالیاں کر رہا ہے۔پاکستانی فوج ایک دہشت گرد فوج ہے جس نے 1971 میں بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کی تھیں اور اسی طرح آج پاکستانی فوج بلوچستان میں خواتین کو جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کی ممبر ایمان بلوچ نے کہا بلوچستان کے مسئلے کا 1948 کو اس وقت آغاز ہوا جب پاکستانی فوج نے خطے پر طاقت کے زور پر قبضہ جمایا۔تب سے بلوچ اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور پاکستانی حکومت انھیں جبر اور تشدد سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔صورتحال اس وقت بدتر ہوئی جب پاکستانی حکومت نے بلوچوں کے خلاف غیر ضروری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی جبری گمشدگی ، ماورائے عدالت قتل اور ٹارچر کا آغاز کیا۔
انھوں نے کہا بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں خطرے کی حد تک پہنچ چکی ہیں۔پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے ہزاروں بلوچوں کو قتل اور اغواء کیا،انھیں اذیت گاہوں میں اذیت دیئے گئے اور ان کے خاندان کو ڈرایا دھمکایا گیا۔
سوشل میڈیا کی سرگرم کارکن ھداھیر الہی نے کہا بلوچ خواتین اور ہمارے بھائیوں کو بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو ختم کرنے کے لیے جیلوں میں ڈالا گیا۔لیکن قابض ریاست طویل عرصے تک بلوچستان میں اپنے قبضے کو باقی نہیں رکھ سکتی۔
انھوں نے کہا بلوچستان میں کافی عرصے سے جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کی بنیاد پر اقوام متحدہ کو بلوچستان میں مداخلت کرنا چاہیے اور یورپی یونین پاکستان اور اس کی فوج کی امداد بند کرئے۔