ماھل بلوچ کی جبری گمشدگی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ پی یو اے

362

پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ رات کوئٹہ شہر کے سیٹلائٹ ٹاؤن سے دو معصوم بچوں کی والدہ ماہل بلوچ کو سکیورٹی اداروں نے جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا ہے جوکہ ریاستی اداروں کی بوکھلاہٹ کے واضح علامت ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس جبری گمشدگیوں کے غیر قانونی، غیر آئینی و غیر انسانی اور غیر جمہوری حرکت کی روز اول سے شدید الفاظ میں مذمت کرتا آرہا ہے۔ اور ہم دو ٹوک الفاظ میں یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جبری گمشدگی ایک غیر انسانی، غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے اگر کسی فرد یا خاتون نے کوئی جرم کیا ہے تو ان کو سزا دینے کے لیے اس ریاست کی عدالتیں موجود ہیں، بجائے اس کے کہ ریاست اپنے اداروں پر بھروسہ کریں وہ اس گھناونے عمل کے ذریعے ظلم اور جبر کے خلاف اٹھتی ہوئی آوازوں کو دبانے میں مگن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی سیکیورٹی اداروں کی جانب سے بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی سمیت اب خواتین کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جو کہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ قابل مزاحمت ہے۔ یاد رہے کہ 3 فروری کو ہی کوئٹہ شہر کے گیشکوری ٹاون سے رشیدہ زہری کو اپنے بچوں، خاوند اور ساس سمیت جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا، جن کو گیارہ دن کے بعد احتجاجی مظاہروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے کیمپئین کی وجہ سے رہائی ملی۔ جبکہ اس کا خاوند محمدرحیم زہری اب تک ریاستی زندانوں کے اندر موجود ہے۔

واضح رہے کہ ان دو معصوم بچیوں کے والد شہید ہو چکے ہے ان کے والدہ ہی ان کا سہارا ہے۔ اور اب ان معصوم بچوں کی والدہ ماحل بلوچ ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہے. پروگریسو یوتھ الائنس ایک بار پھر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ماہل بلوچ کو فی الفور بازیاب کرایا جائے اور جبری گمشدگی کے شکار تمام افراد اور پُرامن سیاسی کارکنوں کو عدالتوں میں پیش کراتے ہوئے انہیں سزائیں دی جائیں مگر جبری گمشدگی جوکہ پاکستان کے آئین میں اب ایک جرم بن چکا ہے، کے سلسلے کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اپنے کارکنوں سمیت صوبے بھر کے تمام سیاسی کارکنوں، نوجوانوں، طلباء اور محنت کشوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ کل بلوچ وومن فورم کے زیر اہتمام ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف ہونے والی احتجاجی ریلی میں بھرپور شرکت کرتے ہوئے جمہوری اور انسان دوستی کا ثبوت دیں۔