کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4955 دن ہوگئے ہیں، آج سماجی اور ادبی شخصیت زاہد بارکزئی، محمّد اکبر بلوچ، نور محمد بلوچ سمیت دیگر مرد اور خواتین نے کافی تعداد میں کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہوکر کہا کہ دنیا کے بعض دیگر علاقوں میں نسل کشی جبری گمشدگی سمیت انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں پر یہ اقوام متحدہ متحرک نظر آیا مگر بلوچوں کو شاید ابھی انسان ہونے کا درجہ نہیں دیا گیا ہے اسی لئے بلوچ قوم کی نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالی جیسے جنگی جراںٔم پرامن انصاف کا دعویدار یہ ادارہ خاموش اور لاتعلق بنے ہوئے ہیں، اس کردار کے پیش نظر یہ تاثر درست ثابت ہورہا ہے کے یہ ادارہ سامراجی حکمران طبقات توسیع پسندانہ مفادات کے چوکیدار ہیں جہاں سامراجی قوتوں کے لئے انسانی حقوق کی پامالی پرمداخلت کرنا ناگزر ہوتا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ اپنی آزادی غیر جانبدارنہ حیثیت کھوکر محض سامراجی طاقتوں اور ان کی حواری حکمرانوں کے اشاروں پر رقص کرنے تک محدود ہوگیا ہے 55000 ہزار بلوچوں کو غیر قانونی طور پر جبری غائب کرنے اور ان میں سے ہزاروں کو بدترین درندگی آمیز تشدد سے شہید کرکے ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنے کے انسانیت سوز اور دل ہلا دینے والے المیوں اور جنگی جراںٔم پر بڑے بڑے پتھر دل بھی پگھل جاتے ہیں لیکن اس بےحسی کے باوجود جبری لاپتہ بلوچوں کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جدوجہد کو جاری رکھنے کا عزم کر رکھا اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب بھوک ہڑتالی کیمپ کو کوئٹہ سے کراچی منتقل کر دیا گیا ہے جن کا مقصد ہر اس مقام پر آواز بلند کرنا ہے جہاں پاکستانی مقتدرہ قوتوں اور بین الاقوامی امن انصاف اور انسانی حقوق کےدعویداروں کے مرکز پائے جاتے ہیں لاپتہ بلوچوں کے لواحقین اپنا یہ مطالبہ بار بار دوہرا رہے ہیں کہ اگر ان کے پیارے مجرم ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے مقدمات چلائے جائیں –