قسم ہے، تمہیں ماؤں،بہنوں کی ۔ آئی کے بلوچ

388

قسم ہے، تمہیں ماؤں،بہنوں کی

تحریر: آئی کے بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“موت کے ڈر سے خاموش بیٹھنے والے تم کب کے مر چکے ہو”

لکھنے والے جب جب لکھتے ہیں انسان کو حالات و واقعات، ظلم و جبر، جنگ و امن، غلامی و آزادی ،محبت و نفرت، اچھے برے، خیالات، جذبات، خوشی، غم اور امید، ناامید کے ہر پہلو تک پنہچانے کی کوشش کرتے ہیں، جب ہی تو کہتے ہیں لکھاری کا قلم , بندوق سے زیادہ خطرناک ہے۔

کچھ دن قبل دورانِ سفر میں ایک کتاب کو پڑھ رہا تھا کہ اچانک ساتھ بیٹھے اک کماش (بزرگ)پوچھنے لگے” کونسی کتاب پڑھ رہے ہو؟”

جی! بشیر زیب کی کتاب مہرگوش پڑھ رہا ہوں۔

‘بشیر زیب’ سنتے ہی کتاب اپنی آنکھوں پہ رکھتے ہوئے کہنے لگے”گوری مرین نُمکن درتی نا مار”۔

یہ سب دیکھتے ہوئے ، میرے دل میں اک خواہش نے جنم لی؛ اے کاش! یہ خوبصورت لمحہ قید کر سکتا،لیکن سچ تو یہ کہ خواہشات کی ہر کشتی کو کنارہ نہیں ملتا۔

کنا خواجہ(احترامً)! آپ بشیر زیب کو جانتے ہیں؟

“کنا مار(میرے بیٹے)ان عظیم لوگوں کو کون نہیں جانتا، جہنوں نے خود کو ہر طرح سے قربان کرکے ہمیں حقیقی آزادی، شعوری انقلاب سے آشنا کیا۔ جنکی وجہ سے آج ہمارے پاس اچھے لکھاری، ادیب، شاعر اور دانشور موجود ہیں۔ مگر افسوس، ان میں سے بہت سارے لکھاری، ادیب، شاعر اور دانشور ظالم کے ڈر سے قلم اور ضمیر کا سودا کر چکے ہیں۔

مزید کہنے لگے، میری منزل قریب ہے بس اتنا ہی کہونگا کہ قسم ہے،تمہیں ماؤں بہنوں کی! نفرت، تعصب کے عینک پہن کر ایک دوسرے کو آنکھیں دیکھانے سے اچھا ہے عینک اتار کر اُن ریاستی کٹھ پتلی، سرداروں اور وڈیروں کو آنکھیں دیکھاؤ اور اپنی ماؤں بہنوں کا بدلہ لو۔ جنکی وجہ سے آج ہماری ماؤں اور بہنوں کی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں۔

مجھے یاد ہے 1977 میں ہمارے گاؤں میں نہ ختم ہونے والی خونی جنگ شروع ہوئی تو ایک عورت نے اپنی چادر دونوں فریقین کے درمیان رکھتے ہوئے کہنے لگی،”قسم ہے تمہیں ماؤں،بہنوں کی اس چادر کی” تو نہ ختم ہونے والی جنگ خود بہ خود ختم ہوگئی کیونکہ یہ اس زمانے کے ان پڑھ ، جاہل لوگ تھے جو عورت کی عزت و چادر کا احترام اور حفاظت کرنا جانتے تھے۔

لیکن صد افسوس ! آج تم جیسے ہزاروں پڑھے لکھے نوجوانوں کے ہوتے ہوئے ریاستی سردار اور وڈیروں نے تم لوگوں کی ماں، بہن کی عزت و چادر کو تار تار کرکے ان سے اپنے لیے سیاسی جھنڈے بناتے ہیں۔ پھر انہیں جھنڈوں کو تم لوگ بڑے فخر سے اپنی گاڑیوں، دکانوں، دیواروں، یہاں تک کہ اپنے سینوں پہ لگائے پھرتے ہو۔”

یقین مانیں اس کماش کی باتوں کی وجہ سے میں خاکسار کانپ رہا تھا۔

اس لیے میں نے “مہرگوش” کو پھر سے پڑھنا شروع کیا تو جیسے وہاں پہ بھی رائٹر یہی کہہ رہے ہو، “قسم ہے! تمہیں ماں بہنوں کی”، آؤ، اپنی تمام تر غلطیوں کو بھلا کر ریاستی کٹھ پتلیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیں۔اور اپنی ماں بہنوں کی عزت و چادر کی اور بلوچستان کی حفاظت کریں۔

آخر میں، میں خود سے اور اُن نوجوانوں سے کہنا چاہونگا کہ قسم ہے تمہیں ماؤں بہنوں کی، آؤ، ملکر بلوچستان میں موجود تمام ریاستی سرداروں وڈیروں اور سیاستدانوں کا مقابلہ کریں اور یہ عہد کریں کہ اب ہمارے سینوں میں دل نہیں، بغاوت اور مزاحمت دھڑکے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں