عطاشاد ادبی فیسٹول تربت ۔ اسد بلوچ

273

عطاشاد ادبی فیسٹول تربت
‏تحریر: اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

‏تربت میں اُردو اور بلوچی زبان کے جدید آہنگ شاعر عطاشاد کی برسی پر بلوچستان اکیڈمی تربت کی طرف سے 13 فروری سے تین روزہ ادبی فیسٹول کا آغاز کیا گیا تھا جس کا اختتام 15 فروری کو رات 11 بجے محفل مشاعرہ کے ساتھ ہوا۔

‏تربت میں یہ پہلی ادبی فیسٹول تھی جو مسلسل تین دنوں تک جاری رہی، اس فیسٹول میں کئی حیران کن واقعات سامنے آئے جن میں تین دنوں میں 35 لاکھ روپے کی ریکارڈ کتابیں فروخت ہونے کے علاوہ تین دنوں میں لوگوں کی مسلسل رش اور رات تک خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی انہماک سے سیشن میں بیٹھ کر مقررین کو سننا اور کتابوں سے لگاؤ اپنے بطور ایک مثال ہے جب آخری روز رات 11 بجے پروگرام محفل مشاعرہ کے ساتھ اختتام کو پہنچا تب بھی وہاں 5 سو سے زیادہ سامعین میں سے کم و بیش 50 سے زیادہ نوجوان لڑکیاں خریدی گئی کتابوں کے ساتھ موجود تھیں۔

‏عطاشاد ادبی فیسٹول تربت میں 22 پبلشرز اپنی کتابوں کے ساتھ آئے تھے جن میں معروف اشاعتی ادارہ بدلتی دنیا، فکشن ہاؤس اور علم و ادب پبلشر شامل ہیں جبکہ کراچی، کوئٹہ، گوادر، پشکان اور کیچ سے لوکل پبلشرز نے کتابوں کے اسٹالز لگائے۔

‏بلوچستان اکیڈمی تربت نے عطا شاد کو ایک بڑے ایونٹ کی صورت کیسے یاد کیا؟ اس کا سبب بلوچستان اکیڈمی تربت کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عفور شاد یوں بتاتے ہیں” فیسٹول کے لیے ایک مصمم ارادہ میرے زہن میں تھا، ہم نے سوچا کہ یہ کرنا ہے اور ہر حال میں کرنا ہے میں نے یہ آئیڈیا دوستوں سے شیئر کیا تو سب اس پر متفق ہوئے اس کے بعد ہم نے مشاورت کی اور تیاریوں میں لگ گئے، ہمیں ایک لمحہ یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہم پروگرام نہیں کرسکتے البتہ فنانشل سپورٹ ملنا ایک بڑا مسلہ تھا اگر بروقت ہمیں یہ سپورٹ نہ ملتا تو ہوسکتا ہے اس نوعیت کے بڑے ایونٹ کرنے میں کامیاب نہ ہوتے لیکن جب ہم نے کام شروع کیا تو لوگ آتے گئے، خیالات ملتے گئے، سپورٹ ملنا شروع ہوا اور ہم ایک بہت بڑے ناقابل یقین فیسٹول کے انعقاد میں کامیاب ہوئے، جب فیسٹول شروع ہوا تو پہلے دن سے اندازہ ہوا کہ ہم ایک ایسے میگا ایونٹ کی جانب برھ رہے ہیں جس کا تصور پورے بلوچستان میں نہیں کیا جاسکتا تھا، دراصل عطاشاد ایک ایسا نام ہے جو لوگوں کو متاثر کرتا ہے، عطاشاد بلوچی ادب کی نہیں بلکہ کیچ کی بھی نہیں پاکستان میں بلوچستان کی پہچان ہے”

‏تربت میں پہلی بار عطاشاد کے نام پر لٹریری فیسٹول یہاں کی ادبی تاریخ کی پہلی بڑی ایونٹ تھی اس میں قیصر بنگالی کے سوا تمام اہم مہمان مقررین کا تعلق بلوچی ادب اور بلوچ سیاست سے تھا جن میں معروف سوشلسٹ دانش ور ڈاکٹر شاہ محمد مری، کوہ سلیمان سے چاچا اللہ بشک بزادر، ڈاکٹر واحد بخش بزدار، سعید تبسم مزاری اور اردو کے جوان سال شاعر وحید نور اور سانی سید نمایاں تھے۔

‏عطاشاد ادبی فیسٹول بلوچی ادب اور کیچ و مکران کی سماجی ہیت میں علمی حوالے سے کس طرح کی اثرات کا محرک بن سکتی ہے؟ ڈاکٹر شاہ محمد مری کے مطابق “انسانی اجتماع، یکجاہی اور آپس میں مختلف موضوعات پر ڈسکس ایک گھنٹہ کے لیے ہی سہی زبردست ہے یہاں تین دنوں میں ایسا ہوا یہ ادب اور خصوصاً بلوچی ادب کے حوالے سے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، عطاشاد جیسے بڑے پائیہ شاعر کے نام پر ایسی ایونٹ مثالی ہے، یہاں آمد سے قبل مکران کی علم و ادب کے لیے اشتیاق سنا تھا جب قریب آئے تو یہاں علم و ادب اور کتاب دوستی اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی شدت کا مشاھدہ کیا، تین دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ آئے، مقررین کو سنا، سوال کیے، ہم نے آپس میں خیالات، فکر اور لہجوں کا لین دین کیا، مختلف ریجن سے آئے بلوچ شعراء کا آپس میں تعارف ہوا، ہم نے انتہائی فائدہ مند چیزیں سمیٹیں اور خوش گوار یادیں لے کر واپس جارہے ہیں، یہ بلوچی ادب کی ترقی کا باعث بنے گا ہم دعا کرتے ہیں ایسے فیسٹول ہمیشہ ہوں”

‏عام لوگوں کی نظر سے اگر دیکھا جائے تو تربت کیچ ہمیشہ ادبی حوالے سے بلوچستان میں ایک نمایاں مقام کے بطور جانی جاتی رہی ہے اس کا سب سے معتبر حوالہ خود عطا شاد ہیں، تین روزہ عطاشاد ادبی فیسٹول نے بلوچستانی ادب کو سماجی طور پر قریب لانے میں ایک پل کا کردار ادا کیا۔

‏کیچ میں کتابوں سے عشق کی ایک الگ کہانی ہے “پاکستان میں سب سے زیادہ کتابیں پرھنے والے کیچ سے ہیں” معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی سے منسوب اس بات کی تصدیق تو نہیں کی جاسکتی لیکن تربت میں تین روزہ فیسٹول میں اگر 35 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوں تو یقیناً یہ حیران کن ہے، پاکستان کی عام ریڈر اور تربت کے ایک ریڈر میں کیا فرق ہے؟

‏بدلتی دنیا پبلشنگ ادارہ کے جنرل مینیجر جاوید حسن اس کا ایک خوبصورت نقشہ کھینچتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” پاکستان کا عام ریڈر اسٹال یا دکان آکر اپنی پسند کی کتابیں ٹٹول کر لیتا ہے مگر تربت کے ریڈر کو پہلے سے معلوم ہے اسے کیا اور کون پرھنا ہے، وہ کتابیں ٹٹول کر وقت نہیں ضائع کرتا بلکہ اپنا انتخاب بتاکر کتاب مانگتا ہے یہ گہرا فرق ہے، جاوید حسن ایک اور فرق بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ تربت میں تین دنوں میں ایک بھی ریڈر نے رجعتی نوعیت کی کسی کتاب کے متعلق نہیں پوچھا، ان کے پڑھنے کا دائرہ ادب، سماج، تاریخ یا مذاہب کے درمیان تقابلی جائزہ جیسی کتابیں ہیں وہ فکشن پرھتا ہے، اسے جدید ادب سے شغف ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ کس ادیب یا رائٹر نے کیا لکھا ہے، جاوید حسن کے بقول وہ حال ہی کراچی میں ایکسپو سے حیدر آباد اور وہاں سے تربت آئے ہیں وہ کراچی ایکسپو کے تجربات سے بے حد مایوس دکھائی دیے، ان کے مطابق کراچی کا مزاج رجعتی بنتا جارہا ہے، کراچی ایکسپو میں جان بوجھ کر ڈاکٹر اسرار احمد اور طاہر القادری کو فوقیت دینے کی کوشش کی جارہی تھی، جب حیدرآباد گئے تو یوتھ کا رویہ ہمارے لیے حوصلہ کن تھا، پہلے لگتا تھا کہ یوتھ عمران خان سے دلچسپی رکھتا ہے لیکن وہاں جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ نوجوان نسل اپنی راہیں الگ تلاش کرنا چاہتی ہے، مگر تربت آکر بہت الگ محسوس ہوا یہاں کا نوجوان سب سے الگ ہے، تربت کے یوتھ کا رویہ پاکستانی یوتھ سے بہت مختلف اور منفرد ہے ان کے سوچنے اور پرکھنے کا اپنا الگ انداز ہے”

‏عطاشاد کے نام سے منسوب ادبی فیسٹول میں روجھان مزاری سے شریک ہوئے بلوچی زبان کے شاعر سعید تبسم مزاری نے اپنا تجربہ یوں بتایا” روجھان جمالی سے جب یہاں آرہا تھا تو قطعی طور پر مجھے یہ لگ نہیں رہا تھا عطاشاد ادبی فیسٹول اس قدر منظم اور اتنے بڑے پیمانے پر کیا جارہا ہے، میرے نزدیک یہ بلوچ ادبا کی شعور کا سفر ہے اور اس سفر میں عام بلوچ اس کے ہمسفر ہے، توقع ہے کہ عطاشاد ادبی فیسٹول کا یہ سفر بلوچستان کے سماجی فاصلوں کو مٹانے کا سبب بنے گا”

‏تین دنوں میں عطاشاد کی شخصیت اور ان کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر دو سے زیادہ سیشن رکھے گئے تھے جس پر معروف ادیبوں نے خیال آرائی کی اس کے ساتھ بلوچی زبان و سیاست، بلوچستان کی سماجی اور معاشی اہمیت، سماجی ترقی میں عورت کا کردار، بلوچی ادب میں ترجمہ کی اہمیت اور بلوچ اوریجن جیسی اہمیت کے حامل موضوعات پر پینل ڈسکشنز رکھے گئے تھے جس میں قیصر بنگالی، ڈاکٹر شاہ محمد مری، ڈاکٹر مالک بلوچ، ڈاکٹر واحد بخش بزدار، ڈاکٹر فاروق بلوچ اور چچا اللہ بشک بزادر جیسے نمایاں شخصیات نے حصہ لیا۔
‏ فیسٹول کے دوران 5 کتابوں کی تقریب رونمائی کی گئی جن میں سے دو تراجم پروفیسر عقیل بلوچ کی انگریزی سے بلوچی میں ترجمہ کیا گیا “پہ زبان ءَ یک کتابے” زبان کے لیے ایک کتاب اور فضل بلوچ کی “منتخب کہانیاں” بلوچی افسانوں کا اردو ترجمہ قابل زکر ہیں۔
‏مجموعی طور پر ہر سیشن میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ شریک تھے جن میں عورتیں اور نوجوان لڑکیوں کی تعداد متاثر کن تھی۔

‏تربت یونیورسٹی کی آئی بی ایل سی (بلوچی ڈیپارٹمنٹ) سے تعلق رکھنے والی طالبہ شاری بلوچ کے مطابق تربت میں عطاشاد ادبی فیسٹول کے انعقاد سے نہ صرف طلبہ و طالبات اور ادب سے تعلق رکھنے والوں کو عطا شناسی کا موقع ملے گا بلکہ عورتوں کی اس میں شرکت سماج کی انقلابی مظہر ہے، تین دنوں میں عورتوں کی رش مسلسل برھتی رہی اور جہاں نوجوان لڑکے کتابوں کے اسٹالز میں دیکھے گئے لڑکیاں بھی کتاب خریدنے میں پیش پیش رہیں، شاری بلوچ سمجھتی ہیں کہ تربت علم و ادب کی سرزمین ہے اور ہر سال یہاں ادبی فیسٹول کی ضرورت ہے تاکہ سماجی رویوں میں مثبت تبدیلی در آئے اور علم کا شوق مذید بڑھے۔

‏تین روزہ فیسٹول کا اختتام 15 فروری کی رات محفل مشاعرہ سے کیا گیا اس سے قبل دو دنوں میں رات کو بلوچی کلاسیکل میوزک اور موسیقی کی نشستیں ہوئیں جن میں شرکاء کی تعداد قابل زکر رہی لیکن فیسٹول انتظامیہ کے مطابق آخری شب مشاعرہ میں کم و بیش دو ہزار افراد موجود تھے۔ پندرہ سو کرسیاں لگائی گئی تھیں جگہ نہ ہونے سے درجنوں نوجوان مختلف کونوں میں کھڑے مشاعرہ سے لطف اندوز ہوئے جبکہ کئی نوجوان سامنے اسٹیج کے نیچے بیٹھے تھے۔ رات گیارہ بجے جب مشاعرہ ختم ہوا نوجوان عورتوں کی کافی تعداد کتابیں بگل میں لیے واپس ہوئیں یہ اس فیسٹول کا سب سے خوبصورت لمحہ تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں