مرکزی انجمن تاجران بلوچستان کے صدر عبدالرحیم کاکڑ ، حضرت علی اچکزئی، میر یاسین مینگل، آٹا ڈیلر ایسوسی ایشن بلوچستان کے رہنماسید حاجی ہاشم ، حاجی شیخ عامر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ عوام کو آٹے کی فراہمی کے لئے آٹا ڈیلروں کو سرکاری نرخ پر آٹا دیا جائے اور وزیر اعلیٰ بلوچستان ، صوبائی وزیر خوراک ، چیف سیکرٹری بلوچستان ، سیکرٹری خوراک کو معطل کرکے ان کےخلاف کارروائی کریں بصورت دیگر ہم بلوچستان بھر میں احتجاج شروع کرتے ہوئے مظاہرے ، دھرنے دیں گے اور شٹر ڈان ہڑتال کریں گے جس سے حالات کی تمام تر ذمہ داری متعلقہ حکام پر عائد ہوگی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب میں اپنے دیگر ساتھیوں سعد اللہ اچکزئی، حاجی ہاشم کاکڑ سمیت دیگر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ دو ماہ سے آٹے کا بحران ہے کرپٹ سیکرٹری محکمہ خورک کی ہٹ دھرمی ، ضد اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے گزشتہ سال گندم کی خریداری کا ہدف پورا نہیں کیا جاسکا۔ اور مارکیٹ میں گندم مہنگی ہوگئی۔ محکمہ خوراک نے صرف 3 لاکھ گندم کی بوریاں خریدی گئی جبکہ بلوچستان کو 10 لاکھ بوریاں خریدنا تھی، جان بوجھ کر 3 لاکھ بوری خریدیں گئیں اور عوام آج آٹے کے حصول کے لئے دربدر ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ماہانہ 15 لاکھ بوریوں کی ضرورت ہوتی ہے کوئٹہ شہر کو ہر ماہ 2 لاکھ 70 ہزار بوریوں کی ضرورت ہوتی ہے محکمے کی جانب سے بلوچستان کوماہانہ ایک لاکھ بوری دی جاتی ہے سیکرٹری خوراک ان مسائل پر قابو پانے کے لئے پنجاب پاسکو سے بھی گندم نہیں خرید سکاکہ بلوچستان کی ضرورت پوری ہوسکے۔ اس کی وجہ سے پنجاب سے آٹا لانے کے لئے ملز اور آٹا ڈیلرز کے دکانداروں کو پرمٹ نہیں دیا گیا اور پابندیوں سمیت دفعہ 144 کی وجہ سے گندم مزید مہنگی ہوگئی اور بحران شدت اختیار کر گیا۔
“دکانداروں کے پاس گرین فوڈ لائسنس بھی ہے اس کے باوجود آٹا نہیں دیا جاتا چند گاڑیاں کھڑی کرکے آٹا خرد برد کیا جارہا ہے بلوچستان کی ماہانہ 15 لاکھ بوری کی ضرورت کو سرکاری ملوں کو ایک لاکھ بوری 100 کے جی فراہم کرکے چیزوں کو کیسے بہتر بنائیں گے ان چیزوں کی تحقیقات ہونی چاہئے اپنے عزیز و اقارب کے نام پر فلور ملز اور چکیاں رجسٹرڈ کرواکر کوٹہ دیا جارہا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر خوراک انجینئر زمرک اچکزئی صوبے کے مفاد میں اور عوام کی بھلائی کے لئے محکمہ خوراک پر رحم کریں اور فیصلہ کریں کہ آٹا ڈیلر پنجاب سے آٹا خرید رہے ہیں اور سا کو سندھ کے راستے لایا جارہا ہے جس کا کرایہ ایک 30 ہزار تھا روٹ کی تبدیلی سے اس کا کرایہ 2 لاکھ 50 ہزار تک جا پہنچا ہے۔ تندور والوں کو بوری 9300 روپے میں ملتی تھی اب وہی بوری 13 ہزار روپے میں اور گیس کا بل 50 ہزار سے زائد آتا ہے اس کے لئے ایل پی جی مہنگے داموں خرید رہے ہیں ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ آٹا ڈیلروں کو سرکاری نرخ پر آٹا دیا جائے تاکہ عوام کی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔ میڈیا میں سیکرٹری خوراک کی خرد برد کا انکشاف ہوا ہے اس کی تحقیقات کی جائے وزیر اعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو ، صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی ، چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی ، سیکرٹری خوراک کو معطل کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔
انہوں نے کہا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر ہمارے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو ہم احتجاج پر مجبور ہوں گے جس میں احتجاجی مظاہرے کریں گے۔ دھرنے دیں گے اور پھر بلوچستان بھر میں شٹر ڈان ہڑتال کی جائے گی۔ جس سے حالات کی تمام تر ذمہ داری متعلقہ حکام پر عائد ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تندور والوں کے بھی روٹی کی قیمت میں اضافہ کیا جائے وہ بھی مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہیں۔