ہفتے کے روز بلوچ نیشنل موومنٹ کے زیر اہتمام جرمنی کے دارالحکومت برلن اور بیلفیلڈ میں دو مخلتف مقامات میں بلوچستان میں خواتین کے خلاف ریاستی تشدد ، ماہل بلوچ کی جھوٹے مقدمات میں گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کا انعقاد کیا گیا۔
مظاہرے میں خواتین اور بچوں کے علاوہ جرمن ایکٹوٹس بھی شریک تھے۔
اس موقع پر مظاہرین نے بلوچ سیاسی کارکنوں جبری گمشدگیوں اور ماہل بلوچ کی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں گرفتاری کے خلاف نعرہ بازی کیا۔
اس دوران جرمن اور انگلش زبان میں ایک پمفلیٹ بھی تقسیم کیا گیا جس میں بلوچستان میں ریاستی جبر اور گمشدگیوں کے خلاف تفصیلات درج تھے۔
مظاہرین نے کہا کہ ریاست پاکستان بلوچستان بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستانی فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں جبکہ ہزاروں سیاسی کارکنوں، سماجی کارکنوں اور یہاں تک کہ عام شہریوں کو پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں غیر ارادی اور جبری گمشدگیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ انہیں کئی دنوں، ہفتوں اور کئی مقدمات میں برسوں تک تاریک ٹارچر سیلوں میں رکھا گیا ہے۔
مظاہرین نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن آزاد کے رہنما ذاکر مجید کو 2009 میں اغوا کیا گیا تھا، بلوچ نیشنل موومنٹ کی سینٹرل کمیٹی کے رکن ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 2009 میں جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا تھا اور زرینہ مری کو اس کے ایک سالہ بچے کے ساتھ جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں۔
مظاہرین نے کہا کہ یہ بلوچستان میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جبری گمشدگیوں کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔ بدقسمتی سے پوری دنیا یا تو اس جاری انسانی بحران سے ناواقف ہے یا پھر بلوچستان میں پاکستانی مظالم پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح کی بے حسی نے پاکستان کی فوج اور جاسوسی ایجنسیوں کو مزید مظالم کا ارتکاب کرنے کا حوصلہ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اب زیادہ کثرت سے اور زبردستی بلوچ خواتین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ خواتین کو حراست میں لیا جا رہا ہے، انہیں کئی دن ٹارچر سیل میں رکھا جا رہا ہے اور جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رشیدہ زہری کو 13 دن تک ٹارچر سیل میں رکھا گیا۔ پچھلے سالوں میں ایک خاتون حبیبہ کریم کو کئی دنوں تک حبس بے جا میں رکھا گیا، نور جان کو بھی دو ہفتے رکھا گیا۔ اب 17 فروری 2023 کو ماہل بلوچ کو اغوا کیا گیا تھا اور اس کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔ بلوچ مردوں اور عورتوں کی جبری گمشدگی کا یہ رجحان باعث تشویش ہے۔ عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پاکستان سے سوال کرے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ جرمنی کے صدر اصغر بلوچ نے کہا کہ یورپی یونین کے ممالک بلوچستان میں انسانی حقوق کی پائمالیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فوجی امداد پر نظر ثانی کرے۔