بلوچ تاریخ سے متعلق غیر بلوچ مؤرخین کی طرف سے مغالطہ آمیزی ۔ مولانا اسماعیل حسنی

630

بلوچ تاریخ سے متعلق غیر بلوچ مؤرخین کی طرف سے مغالطہ آمیزی

تحریر: مولانا اسماعیل حسنی 

دی بلوچستان پوسٹ

نظامِ فطرت کی خوبصورتی اور قانونِ قدرت کی رنگا رنگی کو سمجھنے کےلیے کئی علوم درکار ہوتے ہیں۔ اس عظیم کائنات میں انسان خود رو گھاس کی طرح محض ایک جڑی بوٹی یا پودا نہیں کہ ایک موسم میں اُگتا ہے اور پھر اگلے موسم میں خشک ہوکر گم سم ہوجاتا ہے اور اس کی بیج زمین میں دفن ہوجاتی ہے اور پھر جب اگلے موسم میں بارش برستا ہے تو وہی بیج دوبارہ سے اُگنے لگتا ہے ورنہ اگلے موسم کے انتظار میں بدستور زمین میں دفن ہی رہتا ہے۔ انسان تو اس عظیم کائنات کا بادشاہ ہے، اس کی بادشاہی علم و عقل کی فضیلت پر ہے۔ وہ علوم و فنون ایجاد بھی کرتا ہے اور ختم بھی۔

انسان زمانہ کے رفتار کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے، پہلے زمانے اگر یہ چشموں، کنوؤں اور بہتی ہوئی کاریزات سے پانی نکال کر زمین کو سیراب کرلیتا تھا، اب بورنگ اور ٹیوب ویل سسٹم کا نظام بھی اسی کی مرہونِ منت ہے۔ یہی انسان ترقی یافتہ ممالک میں بادلوں کے نظام سے متعلق بھی کام کر رہا ہے۔ کئی علوم و فنون کے دریا عبور کرنے کے بعد یہ یہاں پہنچا ہے۔ پہلے زمانے میں موسمیات و ماحولیات کےلیے بوڑھے حضرات اپنی تجربات شیئر کرکے بتاتے تھے کہ اس بادل میں پانی ہے یا نہیں، اُس آنے والے سیاہ بادل سے برف ہوگی یا بارش اور یا پھر ژالہ باری، بوڑھے رحلت کرتے گئے اور یہ علم دھیرے دھیرے اُٹھتا گیا، انسان نے عقل دوڑائی تو اس کےلیے اب جدید سائنسی آلات کی خدمات لی جاتی ہے جو بوڑھے تجربہ کاروں کے اندازوں سے بھی زیادہ ایڈوانس ہے۔ اس سائنسی نظام میں آج کا بچہ بھی بوڑھوں سے زیادہ موسم کا سمجھ سکتا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ زمانہ کی تیز رفتاری میں علوم و فنون کی ہیئتوں کا بدل جانا۔

کچھ علوم ایسی بھی ہیں جن کے متبادل ہمارے پاس ابھی تک دریافت نہیں ہوئے جیسے علم الرؤیا اور علم الاسماء وغیرہ ہیں۔ لیکن بعض علوم ایسی بھی ہیں جن میں جدت آگئی ہے مثلا علم الانساب میں ڈی این اے ٹیسٹ وغیرہ کے ذریعے نسب ثابت کرنا اب ممکن اور آسان ہوگیا ہے۔ پہلے جسمانی علامات، حلیہ، رنگت، قد و قامت کی مدد سے شناخت ہوتی تھی، اب جدید سائنسی آلات کے ذریعے اس پر پیش رفت ہو رہی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کےلیے تاریخی طور پر کوئی نہ کوئی ثبوت تو ہو، یہ ثبوت تاریخی کتابوں میں رطب یا بس صورت میں محفوظ ہوتے ہیں جنہیں کنھگالنا ہر ایرے غیرے کا کام نہیں۔

پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی کی طرف 1976ء میں ایک شاندار کتاب شائع ہوگئی ہے جس کا نام ہے ”تواریخ حافظ رحمت خانی“ ، اس کتاب میں کچھ نہایت جاندار حواشی بھی درج ہیں، جن میں بڑی تفصیل سے لکھا گیا ہے کہ جملہ افغان حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد بنی اسرائیل کے اسباط سے ہیں۔ یہ اقوام افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں اور پہاڑوں میں پناہ گزیں ہیں۔ بنی اسرائیل کے ایک حصہ سے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان میں ہندوازم کا روپ دھارے ہوئے ہیں، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ دونوں قدیم اقوام ہیں، ہندوؤں کا نہیں کہا جاسکتا مگر افغان قوم ایک نہایت ذہین قوم ہے۔ باقی بنی اسرائیل سے ہونا نہ ہونا بہرحال یہ قیاسات ہیں، کہا جاتا ہے کہ بعد میں یہودیوں نے اپنی متذکرہ گم شدہ اَسباط ایتھوپیا سے دریافت کرلی جو قدیم توریت کا وظیفہ کرتے پائے گئے تھے اور حبشیوں میں مکس ہوچکے تھے، ایسے ہی قیاسات بلوچ قوم کی نسبت سے بھی ہیں اور یہی آج ہماری بحث کا موضوع ہے۔

انسانی آبادی نہایت تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے، گلوبلائزیشن کے یلغار سے دنیا کے نقشے سے زبانیں بڑی تیزی سے متاثر ہوتی جارہی ہیں، کئی زبانیں مٹ چکی ہیں اور کئی زبانیں اس وقت مٹنے کے بالکل قریب ہیں۔ بی بی سی کے ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وقت کئی زبانیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شمالی علاقہ جات کی ایک زبان ہے جس کی بولی بولنے والے اس وقت فقط دو بوڑھے رہ گئے ہیں۔ یہ زبان گرائمر کے اعتبار اتنا ثقیل اور کتابی لحاظ اس قدر غیر محفوظ ہے کہ خود ان بوڑھوں کے آل و اولاد بھی اس کے الفاظ نہیں بول پاتے۔ یہ بوڑھے نہ رہے تو زبان ہی ختم۔ یہ رپورٹ قریب دو سال قبل کی ہے۔ نہ جانے بوڑھے ابھی زندہ بھی ہوں گے یا اللہ کو پیارے ہوچکے ہوں گے۔ یہ رپورٹ بتاتا ہے کہ انسان ہمیشہ سہل پسند واقع ہوا ہے، وہ مشکل کے مقابلے میں آسان کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ مغلق اور ثقیل الفاظ لکھنے پڑھنے سے اس قدر نامانوس رہتا ہے کہ اپنی زبان سے بھی دستبردار ہونے کےلیے تیار رہتا ہے۔ دنیا میں جن زبانوں کی گرائمرز ہیں، جو کتابوں میں محفوظ ہیں وہ سب اس وقت انگریزی زبان کے ہاتھوں اپنی وجود اور بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، جن زبانوں کا کوئی گرائمر اور لیٹریچر ہی نہیں، وہ ابھی سے اپنی اپنی زبانوں کا فاتحہ پڑھ کر خیر منائیں!

آج سے دو تین برس قبل دنیا میں جو زبانیں رائج تھیں، ان میں سے بیشتر مٹ چکی ہیں اور چند زبانوں کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ مثلا برصغیر پاک و ہند میں فارسی زبان عوامی اور سرکاری زبان کے طور پر رائج تھی۔ کتابیں، شعر شاعری اور پروگرامات میں فارسی لغات استعمال ہوتے تھے۔ فرنگی استبداد کے یلغار کے بعد ہم نے انگریزی سے متاثرہ اردو زبان کی طرف سفر شروع کیا۔ اب خود اردو زبان کی وجود کو بھی انگریزی سے شدید خطرات کا سامنا ہے۔ اسی پر مقامی زبانوں کو بھی آپ قیاس کرسکتے ہیں کہ فارسی کو انگریزی زبان نے نگل لی اور اس کی جگہ اردو زبان دفتری زبان قرار پائی، اردو زبان نے مقامی زبانوں کو نگلنا شروع کیا۔ اب خود اردو کو انگلش نگلنے لگی ہے۔

اس وقت انگلش تمام زبانوں کو نہایت غیر محسوس طریقے سے نگل رہا ہے۔ انگریزی ڈکشنری میں سالانہ ہزاروں نئے الفاظ شامل ہورہے ہیں اور غیر انگریزی زبانوں میں انگریزی الفاظ، اس وقت ہر زبان کے اہل زبان انگلش سے شعوری لاشعوری میں مرعوب ہوکر اپنی زبانیں ترک کرتے جارہے ہیں یا پھر فیشن کے طور پر اپنی زبان کے الفاظ کی جگہ انگلش کے الفاظ استعمال کرکے اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مار رہے ہیں، یہ انگلش بھی یونائیٹڈ اسٹیٹ امریکہ کی ہے جسے بین الاقوامی سطح پہ فروغ دیا جا رہا ہے۔ جس سے تمام زبانیں متاثر ہوتی چلی جارہی ہیں۔ اس وقت فرانس کے علاوہ کوئی ملک نہیں جو اپنی زبان کی تحفظ کےلیے امریکہ کے سامنے بند باندھ سکے۔ جب کہ فرانس میں بھی ایک قسم کی انگلش زبان رائج ہے، کچھ الفاظ اور لہجوں کا فرق ہے۔ اس معاملے میں فرانسیسی قوم میں شعور اس قدر بیدار ہوچکی ہے کہ کوئی امریکن شہری جب فرانس میں امریکی لہجے میں بات کرتا ہے تو انہیں جواب فرانسیسی لہجے میں ملتا ہے، امریکی لہجے میں نہیں۔ جب کہ ہماری حالت یہ ہے کہ پاکستان کے اسمبلیوں میں ایک بھی انگریز نہیں، حکمرانی کے دعویدار مخلوق ممبرانِ اسمبلی امریکن انگریزی میں اول فول بک رہے ہوتے ہیں۔ دیکھا دیکھی عوام بھی اس راہ پہ چل پڑی ہیں۔ آپ کی اسی اسمبلی میں 90ء کی دہائی میں نواب اکبر بگٹی نے احتجاجاً بلوچی زبان میں تقریر کی تھی اور حالیہ اسمبلی میں مولانا فیض محمد نے عربی میں تو اسی غلام ذہن مخلوق نے آسمان سر پہ اٹھایا تھا کہ پارلیمانی زبان میں بات کی جائے۔

نسلی شناخت کا تحفظ ایک قومی فریضہ ہے، نسلی تحفظ کا اصل ضامن اسلام ہے۔ یہی وہ نکتہ اتفاق ہے جس میں کٹر سے کٹر نیشنلسٹ کو بھی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ زنا کے مقابلے میں نکاح کا رواج اگر نیشنلزم میں رسم ہے تو شریعت میں بھی ایک بنیادی انسانی فریضہ اور حکم ہے۔ زنا اگر شریعت میں گناہ ہے تو قومی روایات میں بھی ایک عظیم جرم۔ ایسی ہی لسان یعنی زبان کا تحفظ بھی ایک قومی امانت ہے۔ براہوئی بھی ایک زبان ہے۔ یہ بلوچوں کا ایک قدیم ترین زبان ہے۔ یہی ہماری مادری زبان ہے، یہ ایک کردگالی زبان ہے۔ مؤرخین کو بلوچ نسل کی طرح اس زبان کے متعلق بھی شدید مغالطوں کا سامنا رہا ہے کہ براہوئی شاید انڈیا کے دراوڑوں سے مستعار لی گئی ہے۔ حالانکہ لغت کے اعتبار سے براہوئی دراوڑی سے 80 سے 85 فیصد مخلتف ہے۔ ماہر لسانیات کے متعلق براہوئی ایلامی زبان ہے جو 4000 قبل مسیح ایلام کردستان میں بولی جاتی تھی، براہوئی اور بلوچ کو اس لیے بھی الگ نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی بلڈ رزلٹس (خون کا گروپ) اور آواز کا ڈی این اے ٹیسٹ رزلٹس ایک ہی ہیں۔ جس پر آئندہ کبھی تفصیل سے ہم عرض کریں گے۔ آج بلوچ تاریخ سے متعلق کچھ عرض کرنا ہے۔

مردم شماری کی آمد آمد ہے اور ساتھ میں بلوچ کلچر ڈے بھی سر پر ہے۔ کسی قوم کو محض کسی ایک اختلافی پوائنٹ پہ تقسیم کرنا سامراجی قوتوں کی ضرورت ہے تاکہ متعلقہ قوم کے باشندوں ˝تو تو میں میں˝ کی تکرار جاری رہے، یوں وہ اپنی مصیبت میں گرفتار رہیں اور ہمیں ان کے اوپر اپنی تسلط برقرار رکھنے کا بھرپور موقع فراہم ہو۔

بلوچ قوم نسلی اعتبار سے اس وقت 6 کروڑ نفوس سے بھی زیادہ ہے، اس سے زیادہ المیہ اور کیا ہے کہ دنیا میں 30 سے 40 لاکھ لوگوں پر مشتمل مملکتیں آباد ہیں لیکن بلوچوں کا اپنا ملک چھوڑ دیجیے نسلی شناخت بھی مغالطوں کی نذر ہورہی ہے۔ طاقت ور حلقے اور بالادست قوتیں ان کی تعلیمی پسماندگی سے فائدہ اٹھاکر اصل تعداد کبھی ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ ہمیشہ اس تعداد کے مقابلے میں کوئی نہ کوئی روڑا اٹکا دیا جاتا ہے۔

دنیا کی سطح پر ایام (ڈے) کی تخصیص کسی قوم، معاشرہ یا طبقہ کے درمیان اظہار یکجہتی کےلیے منائے جاتے ہیں اور بلوچوں کےلیے مختص ڈے تفریق کے طور پر منایا جاتا ہے۔ علاقائی زبانوں کی وجہ سے ہر مردم شماری میں بلوچوں کو گھٹا کر ظاہر کیا جاتا ہے۔ سندھ میں سرکاری دباؤ پر بلوچوں کو سندھی لکھوانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں انہیں چار سے پانچ جگہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس کی وجہ اصل تعداد کبھی شو نہیں ہوتا، جب تک تعداد یوں چھپتا رہے یہ قوم سوئی رہے گی۔ ہماری آبادی میں بمشکل 3 فیصد بلوچ اور 1 فیصد یا شاید اس سے بھی کم بلوچوں کے دیگر شاخوں کو مردم شماری کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے جوکہ ایک بہت بڑی دھاندلی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب آخر کس وجہ سے؟ جواب وہی کچھ غیر بلوچ مؤرخین کی پھیلائی ہوئی مغالطوں کی وجہ سے بلوچوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے، یہ مغالطے منصوبے کی تحت پھیلائی گئی ہیں یا لاعلمی؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

براہوئی اور بلوچی میں تقریبا تمام الفاظ مشترک ہیں۔ گنتی کے اعتبار سے 3 فیصد بلکہ صرف ابتدائی تین عدد ہی کا فرق ہے۔ خود بلوچی فارسی زبان سے ملتی جلتی ہے اور فارسی اور کردی زبان بھی اتنے ہی تناسب میں تقریبا ایک جیسے ہیں۔ ان تمام زبانوں کی گرائمر بھی بالکل ایک جیسے ہیں، کردی زبان کا نہیں پتہ باقی سب میں تذکیر و تانیث کا بھی قاعدہ کلیہ نہیں، گنتی بھی ایک جیسی ہے۔ اس قدرِ مشترک سے بعض مؤرخین کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی ہے کہ شاید بلوچ فارسیوں سے ہے۔ نسلی اعتبار سے ہمیں فارسیوں کا نہیں پتہ وہ تو خود ایک قدیم ورثے کا دعویدار قوم ہے، باقی اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچوں اور پشتونوں کے کئی اقوام فارسی زبان اختیار کرچکے ہیں۔

اقدار مشترکہ کی بنیاد پر کہا جاتا ہے بنیادی طور پر یہ تینوں زبانیں ایک تھی اور اس کا نام پہلوی تھا۔ ادوار کی تبدیلی سے نام بدلتا رہا ہے۔ مثلا آشکانی پہلوی دور میں اسے پہلوی زبان کہا جاتا ہے۔ ساسانی دور میں پہلوی ساسانی کہا جاتا ہے۔ خاندانی لحاظ سے یہ آریائی زبان ہے البتہ فارسی زبان میں باہر کی نسلیں زیادہ ہیں بنسبت بلوچ اور کرد کے۔ ایران کے فارسیوں کا ایک ڈی این اے ٹیسٹ ہوا ہوا ہے جس میں پوائنٹس کے حساب سے اصفہان کے فارسی کردوں سے ملتے ہیں اور شیراز کے فارسیوں کا بلوچوں سے زیادہ ملتے ہیں بنسبتِ دیگر فارسیوں کے۔ لسانی اثرات کی وجہ سے زبانیں متاثر ہوئی ہیں خون کے اعتبار سے یہ سب ایک ہیں۔

زبان کی تبدیلی کے سفر سے نسل تو متاثر نہیں ہوتا۔ ایسے ہی براہوئی اور بلوچی میں لسانی فرق نسلی تفریق کا ذریعہ ہرگز نہیں بن سکتا۔ براہوئی کردش زبان ہے۔ ہمارے یہاں جو اقوام براہوئی اور بلوچی زبان بولتے ہیں کردستان میں یہی سارے یہی اقوام کردش بولی بولتے ہیں، ہمارے یہاں کے کرد براہوئی اور بلوچی زبانیں بولتے ہیں اور کردستان میں کردی بولی بولے تو محض الگ بولی بولنے سے نسلی شناخت پر کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ جن کا دعوی ہے کہ ہم الگ قوم ہیں تو انہیں سب سے پہلے ڈی این اے رزلٹس کے ذریعے اپنا متبادل شناخت ظاہر کرنا ہوگا کیوں کہ جینیٹکلی طور پر کرد، براہوئی اور بلوچ ایک ہی نسل ہے۔ (خدا کرے کہ ان کی DNA ٹیسٹ خود ˝جاٹ˝ یا راجپوت سے نہ ثابت ہوجائیں۔)

سوچنے کی بات ہے کہ اگر سندھ اور پنجاب کے درانی سندھی اور پنجابی بول کر اپنی نسل تبدیل نہیں کرسکتے، کراچی کے یوسفزئی اردو اسپیکنگ بول کر اپنی اصل تبدیل نہیں کرسکتے تو بلوچ اگر اپنا ہی کوئی بولی بول لیتے ہیں تو انہیں الگ قوم ظاہر کرنا اور پھر جداگانہ شناخت دینے کی کوشش کرنا آخر چہ معنی دارد؟ ایسے ہی اگر عرب کے ہاشمی اور قریشی، بخارا کے بخاری ہمارے ہاں کے بولیاں بول کر بھی ان کی نسلیں متاثر نہیں ہوتیں تو بلوچ اقوام کی نسلیں اپنی ہی زبانوں کی وجہ سے کیسے متاثر یا تبدیل ہوسکتے ہیں؟

گزشتہ دنوں جب اس موضوع پر بحث ہورہی تھی تو برادرم عمران عزیز بلوچ نے کردستان میں ہمارے اپنے قبیلہ کے کئی باشندے کمنٹ باکس میں مجھے مینشن کردیا اور قبیلہ میں چونکہ ہمارا سردار خیل طائفہ ہارونی ہے، ہارونی شاخ کے بھی کئی دوست ان کے طفیل فرینڈز بن گئے۔ گوگل ٹرانسلیشن پہ اب ان سے کردش سورانی زبان میں گفتگو بھی ہوتی ہے۔ ہمارے دوست عمران عزیز بلوچ کی تحقیق کے مطابق بلوچوں کے 80 قبائل کردستان میں دریافت ہوچکے ہیں جن میں محمد شہی وغیرہ سب قبیلے شامل ہیں۔

بعض مؤرخین کا دعوی ہے کہ بلوچ عرب نسل سے ہیں، بعض عرب مؤرخ بھی بلوچوں کو عرب میں شمار کرتے ہیں، کچھ عرب ممالک بلوچوں کو نیشنلٹی بھی دیتے ہیں، عرب بلوچ تہذیب میں بھی باہم قریب ہیں، ثقافتی علامتیں بھی ملتی جلتی ہیں مثلا پہاڑی علاقوں میں رہائش عرب بھی پسند کرتے ہیں بلوچ بھی، یہ مزاج کے لحاظ سے ایک قربت ہے۔ اونٹ عربوں کی بھی نشانی ہے اور بلوچوں کی بھی، یہی وجہ ہے کہ ہمارے بلوچستان کا سرکاری لیول پر شناخت اونٹ ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی چیزوں میں ان کے درمیان قدریں مشترک ہیں لیکن ان اقدار کے اشتراک کا ہرگز یہ معنی نہیں کہ بلوچ عرب سے ہیں، بلوچوں کی اپنی تاریخ ہے۔

سعودی عرب کے ایک مؤرخ نے اپنی کتاب میں ”البلوش کیف انتشر فی العالم“ (بلوچ دنیا میں کیسے پھیل گئے؟) کے تحت لکھتا ہے کہ بلوچ ہم سے ہیں، وہ بلوچوں کی ہجرت اور دنیا میں پھیلنے کا یہ سبب بتاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب خلافت کا منصب سنبھال لیا تو بعض اقوام نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا کہ معاہدہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ بعض نے سرکشی کی اور آمادہ بہ جنگ بھی ہوگئے۔ بلوچوں نے زکوۃ دینے سے انکار تو کیا لیکن صحابی رسول کے احترام میں جنگ پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اس وجہ سے انہیں عرب خطہ مرضی سے چھوڑ کر نکلنا پڑا۔ اس مؤرخ نے اپنی کتاب کے اس ذیلی عنوان میں سرِ فہرست تین اقوام کو بلوچوں کے بڑے قبائل کے طور پر شمار کیا ہے۔ محمد حسنی، زہری اور اس کے بعد مینگل۔ ان اقوام کے بلوچ قبائل میں تذکرے اور شمار کرنے کی صحت سے انکار نہیں لیکن عربوں قُربت اور راہ رسم کے باوجود بلوچ کا عرب سے ہونے والے دعوے سے بالکل اتفاق نہیں، قدیم عرب تاریخ میں بلوچ شامل نہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ درج بالا واقعہ گھڑی گئی ہے۔

ہمارے مامسنیوں (محمد حسنی) میں سے بعض طائفے سادات ہونے کا دعوی کرتے ہیں جیسے کہ شیخ حسینی وغیرہ اپنے ناموں کے ساتھ ”شاہ“ کی نسبت بھی لگاتے ہیں، یہ سراسر غلط اور بالکل بے بنیاد بات ہے۔ ہم مامسنی ہرگز سید نہیں۔ سید سے مراد آلِ رسول یعنی حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے اولاد سے نہیں۔ بعض بڑوں کا کہنا ہے مامسنیوں کے جد امجد محمد یا احمد کا سیدنا امام حسن کے ساتھ خدمت یا کسی دوسری وجہ سے کچھ عرصہ قُرب رہا ہے۔ اس نسبت سے قبیلہ کے نام میں ”حسن“ کی اضافت آرہی ہے وگرنہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہمارے سلسلہ نسب میں کوئی بھی حسن نامی شخص نہیں۔

ہمارے قبیلہ کے جد امجد میں احمد کا بیٹا جو محمد نام ہے، یہ قبیلہ ان ہی کے نام منسوب ہے، محمد نے کئی شادیاں کی تھیں، جن سے ان کے 30 سے زائد بیٹے تھے۔ جن کے نام یہ ہے:

کھیا، دُرّک، کاہال، مزار، مردان، ہارون، شیخ حسین، لِوار، انام، پیرُک، سُمال، شہداد، کولاچ، اسماعیل، زنگی، شاہ، یوسف، شیروز، عید، مندو وغیرہ۔۔۔

ان ہی کی نسبت سے ذیلی طائفے یہ ہیں جو اب خود قبیلوں کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے:

کھیازئی، درکزئی، کاہالازئی، مزارزئی، ہارونی، شیخ حسینی،

مردان شہی، لوارزهی، انام زئی، پیرکزئی، سمالزئی، شہدادزئی، کولاچی، اسمٰعیلی، راجیزئی، زنگیانی، شاہی زئی، یوسفی، شیروزئی، زیرکانی، درکانی، عیدوزئی، کیسازئی، مندوزئی، سورآبزئی، سیاہی زئی، قہار زئی، شاہوزئی، شاگزئی، کچھ قبائل کے نام ابھی مستحضر نہیں۔ جو بیٹا جہاں گیا وہیں کے زبان، تہذیب و ثقافت اور راہ و رسم اختیار کرلی۔ آپ کو پشتونوں میں بھی محمد حسنی ملیں گے فارسیوں میں بھی لیکن زبان کے فرق سے نسلی شناخت متاثر نہیں ہوتا کہ پشتون انہیں افغان قبائل میں شمار کریں۔

ذیل میں ایک چارٹ دیا جا رہا ہے، اس چارٹ میں آپ دیکھیں کہ وادیٔ سندھ موھنجوداڑو کے ڈی این اے رزلٹ دیکھیں۔ 87 فیصد ایرانین ھنٹر گیدرر (ایرانی نیولیتھک فارمرز) کا خون اور 13 فیصد ساؤتھ ایشین خون ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ وادیٔ سندھ کے قدیم باشندے دراوڑ ایرانی نیولیتھک فارمرز تھے، جن کا بلڈ اس وقت بلوچ براہوئی میں بھی موجود ہے۔ نہ وہ آریا تھے اور نہ براہوئی بلوچ آریا ہیں۔ البتہ بلوچی، براہوئی زبان نے آریائی لسانی اثرات ضرور قبول کیے ہیں جبکہ براہوئی میں ابھی بھی دراوڑی اثرات باقی ہے لیکن براہوئی بولنے والے قبائل جینیاتی طور پر انڈیا کے دراوڑی بولنے والے کالی رنگت (سیاہ فام) قبائل سے یکسر مختلف ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں