پڑو ادبی کچاری کے چئیرمین سعید نور نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ براہوئی زبان و ادب کے نامور شاعر اور پڑو ادبی کچاری ممبر خواجہ محمد مزمل کے جبری گمشدگی ک مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواجہ مزمل بے گناہ ہے ان کو جلد از جلد با زیاب کیا جائے اگر وہ واقعی کسی قانون شکنی میں ملوث ہے تو انہیں منظر عام پر لاکر ان کے خلاف قانونی کاروائی کی۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کے ایسے اقدام سے نہ صرف بلوچستان کے ادبی اداروں لکھاریوں بلکہ کتاب کلچر کو فروغ دینے والوں میں شدید خوف ہراس پھیل جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سوچھے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان کے نوجوان طبقہ کو نفسیاتی ٹارچر کیا جارہا ہے تاکہ ان کی تخلیقی صلاحتیں اور علم دوستی اور شعور دم توڑ دیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 4 میں واضح کہا گیا ہے کہ “تمام اِنسان برابر ہیں اور ہمیں سب کے ساتھ باہمی عزت و اِحترام برداشت بُردباری عدل و اِنصاف اور رواداری کا رویہ اپنانا چاہیے”
جبکہ 8سے 28 میں بنیادی حقوق کی باتیں کی گئی ہے جبکہ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں عام غریب کے لیے قانون اور خاص افراد کے لیے قانون اور ہیں خاص افراد کے لیے عدالتیں آدھی رات کو عدالتیں کھول کر ان کے کالے کو سفید کیا جاتا ہے جبکہ غریب عوام کے لیے دن کی روشنی میں بھی انصاف کی کرن دور دور تک نہیں دکھائی دیتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے تمام اداروں بلوچستان کے ادبی تنظیموں اور تمام مکتبہ فکر کے شعرا ادبا سے بذریعہ میڈیا درخواست کرتے ہے کہ وہ خواجہ مزمل کے بازیابی کے لیے کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہاں کہ بلوچستان کے ادبی ادارے خصوصاً براہوئی ادبی اداروں کی خاموشی اور ان کے نام نہاد دانشوروں کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔