بارکھان کا المناک واقعہ
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان دو دہائیوں سے انسرجنسی کی گرفت میں ہے اور بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لئے پاکستان کے بنائے گئے پالیسیوں سے تواتر کے ساتھ المناک واقعات رونما ہورہے ہیں۔ زہری خاندان اور ماہل بلوچ کے لئے احتجاج کا سلسلہ ابھی تھما نہیں تھا کہ بارکھان کا المناک واقعہ وقوع پذیر ہوا۔
بیس فروری کی رات کو بارکھان میں ایک کنویں سے سترہ اٹھارہ سالہ لڑکی اور دو نوجوان لڑکوں کی لاشیں برآمد ہوئیں، جِن میں ایک لاش خان محمد مری کے بچے کا ہے، جو عبدالرحمن کیتھران کے نجی جیل میں قید تھا اور دو لاشوں کی اب تک شناخت نہ ہوسکی ہے۔ بچوں کے قتل کے بعد لاشوں سمیت مری قبیلے نے کوئٹہ میں دھرنا دیا، اور بلوچستان میں اس واقعے کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا، جس کے بعد پولیس نے عبدالرحمن کیتھران کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس سے پہلے دو ہزار چودہ میں عبدالرحمن کیتھران کو نجی جیل میں لوگوں کو قید کرنے اور غیر قانونی ہتھیار رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا اور عدم ثبوت کے بنا پر عدالت سے اُن کی رہائی ملی تھی۔
آزادی پسند حلقوں کا دعویٰ ہے کہ عبدالرحمن کیتھران کو پاکستان فوج کی سرپرستی حاصل ہے اور انہیں بارکھان میں آزادی کی تحریک کا راستے روکنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ یہ الزام لگتا رہا ہے کہ عبدالرحمن کیتھران کو پاکستان فوج کی پشت پناہی میں لوگوں کو اغوا کرکے نجی جیل میں رکھنے اور قتل کرنے کی آزادی ہے۔ خان محمد مری کے بچوں کے قتل کا واقعہ پہلا نہیں ہے بلکہ عبدالرحمن کیتھران دو سال پہلے صحافی انور کیتھران کے قتل سمیت بہت سے واقعات میں ملوث ہے۔
بلوچستان میں اکثریتی سرداروں کو حکومتی یا مبینہ طور پر پاکستان فوج کی سرپرستی حاصل ہے اور سرداروں کو اپنے علاقوں میں لوگوں پر ظلم ؤ جبر کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ بارکھان سے پہلے زہری ، جھل مگسی اور نصیرآباد میں ایسے المناک وقعات رونما ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں اکثر سرداروں کی نجی جیلیں ہیں لیکںن حکومت اِن واقعات کی روک تھام کے بجائے ملزمان کو بچانے کی کوشش میں ہے جس سے بلوچستان میں عوام کا بھروسہ حکومتوں پر سے اٹھ چکا ہے اور صرف احتجاج اور سیاسی مزاحمت کو حقوق حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔