کراچی پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4959 دن ہوگئے۔ ملیر کراچی سے سیاسی سماجی کارکن داد محمّد بلوچ، سراج بلوچ سمیت دیگر مرد اور خواتین نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
ماما قدیر نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے لکھا کہ بلوچستان جل رہا ہے، ہر جگہ خون ہی جون ہے بلوچستان میں ناہی مرد حضرات محفوظ ہیں ناہی خواتین، ریاستی ادارے خواتین کو سرعام اغواء کرتے ہیں ان پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں اور انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔
انہوں نے بارکھان میں ہونے والے واقعے پر کہا کہ یہ دل دہلانے والا ہے اور یہ واقعہ بلوچستان کی کہانی بیان کررہا ہے، اس واقعہ نے سچائی کو روز روشن کی طرح عیاں کی ہے اسمبلیوں میں بیٹھے لوگوں کی حقیقت کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں ماں اپنے اور اپنے بچوں کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی اس وقت ریاستی ادارے کیوں خاموش تھے؟ کیوں کوئی حرکت میں نہیں آیا، کیونکہ وہ لوگ اس کے قید تھے جس کو جی ایچ کیو کی آشیرباد حاصل ہے اور اس کے سر پہ انہی کا ہاتھ ہے۔ بارکھان واقعہ میں قتل ہونے والوں کا قاتل جی ایچ کیو و فوجی اور خفیہ ادارے ہیں جن کا آشیرباد مذکورہ وزیر کو حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ عبدالرحمان کھیتران جیسے لوگ آکر وزیر بنتے ہیں اور اپنے نجی جیل میں لوگوں کو قید کرکے رکھتے ہیں تو آپ سمجھ جائیں بلوچستان کے جو نمائندے بنے کا دعوی کرتے ہیں وہ نمائندے ہیں یا ان اداروں کے خاص بندے ہیں جنہوں نے بلوچستان کو لہولہان کی ہے۔