ایس ایس ایف ایک شعوری درسگاہ
تحریر: اکبر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس بات سے میں ہرگز انکاری نہیں ہوں کہ انسانی شعور کی پختگی میں سب سے زیادہ کردار کتاب کا ہوتا ہے مگر اُس کتاب کو آپ تک پہنچانے کیلئے ایک فکری و شعوری درسگاہ کا ہونا ضروری ہے، جس کے ذریعے سماج میں موجود ہر فرد کو اُن کے ارد گرد کے ماحول سے بیدار کرنے استعماری سازشوں سے نکالنے اور فکری و شعوری معاشرہ تشکیل دینے کیلئے ایک منظم تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے جِس میں موجود مخلص وفادار و علم سے لبریز فکری کارکن آپ کو لکھنے، پڑھنے و سوچنے سمجھنے پر مجبورِ کرتے ہیں۔ جِس کے بعد آپ پڑھ لکھ کر ایک ایسی شعوری سطح پر پہنچتے ہیں جہاں ہر چیز آپ کے سامنے عیاں ہوتی ہے، پھر آپ بلاجھجک سچ ،جھوٹ حق، ناحق اور جائز و ناجائز میں فرق کرسکتے ہیں۔
ویسے ہی ایس ایس ایف میرے لیے ایک شعوری درسگاہ کی اہمیت رکھتی ہے جس نے مجھے سڑے ہوئے و کیچڑ زدہ سماج سے نکال کر کتاب کی شکل میں ایک ایسی شعوری و فکری چراغ تھما دی جس کی روشنی میں اپنے ارد گرد کے ماحول کو بخوبی دیکھ و جان سکتا ہوں۔ ایک ایسا سماج جو کہ غلام داری، جاگیر داری اور سرمایہ دارانہ جیسے سماجی اور سیاسی و عسکری نظاموں کے ادوار سے گزر رہا ہو، کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے و سمجھنے کی جسارت ایس ایس ایف نے دی۔ اور ایک ایسی شعوری سطح پر پہنچایا کہ نو آبادکار اور استعمار کی طرف سے کی گئی مظالم کو محکوم عوام پر ایک سوچی سمجھی پالیسی سمجھوں نا کہ الہٰی عذاب۔
ایس ایس ایف نے مجھے اس قابل بنایا کہ کیسے اجتماعی خواہشات کو شعوری کوشش سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔
معاشرے میں موجود ہر انسان کو چاہئے کہ اس بے ہودہ نظام سے چھٹکارا پانے اور اپنے آپ کو جاننے کے ساتھ ساتھ اپنے اِرد گرد کے ماحول سے با خبر ہونے کیلئے ایک شعوری درسگاہ کا حصہ بن کر کتاب اور امن کو گلے لگا کر تعلیمی انقلاب برپا کریں۔ بغیر تعلیمی شعور کے بھلا کیسے کوئی اس جابرانہ نظام سے چھٹکارہ پا سکتا ہے؟ کیسے کوئی اپنی انفرادی و اجتماعی خواہشات کو پورا کر سکتا ہے؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں