امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات امریکی دفاع کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا واشنگٹن شدت پسندی کی نئی لہر میں گھرے پاکستان کو سکیورٹی امداد دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔
پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون معطل کرنے کا فیصلہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2018 میں اس وقت کیا گیا تھا جب انہوں نے سخت الفاظ میں ٹوئٹر پوسٹ میں کہا تھا کہ امریکہ نے پچھلے 15 سالوں میں اسلام آباد کو 33 ارب ڈالر سے زیادہ رقم دے کر ’بے وقوفی‘ کی لیکن اسے بدلے میں افغانستان میں ’جھوٹ اور فریب‘ کے سوا کچھ نہیں ملا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے حکام نے کہا تھا کہ یہ معطلی تب تک نافذ العمل رہے گی جب تک پاکستان امریکی اہلکاروں کو نشانہ بنانے والے گروپوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کرتا۔
سفارتی اور سکیورٹی تعاون پر بات چیت کے لیے پاکستان کا ایک وفد اس وقت امریکہ کے دورے پر ہے۔
بدھ کو ایک پریس بریفنگ کے دوران پاکستان کو سکیورٹی امداد کی ممکنہ بحالی کے بارے میں پوچھے جانے پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے حتمی الفاظ میں زیادہ کچھ کہنے سے انکار کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان امریکہ کا قابل قدر شراکت دار ہے۔ وہ بہت سے شعبوں میں قابل قدر ہے۔ یقیناً ہمارا ایک سکیورٹی تعلق ہے جو ہمارے لیے یہ جان کر اہم ہے کہ پاکستان کو درپیش بہت سے خطرات ہمارے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اور اس لیے ہم اس مشترکہ کام کی قدر کرتے ہیں لیکن میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اس سے آگے کچھ بھی بتا سکوں۔‘
امریکہ اور پاکستان کے مابین دفاعی مذاکرات کا یہ دوسرا دور ہے جبکہ اس سے قبل جنوری 2021 میں اسلام آباد میں پہلا دور منعقد ہوا تھا۔
حالیہ بات چیت کے حوالے سے دفتر خارجہ نے ’درمیانی سطح‘ کے مذاکرات کے حوالے سے ایک بیان میں کہا تھا: ’دفاعی مذاکرات کے دوران دوطرفہ دفاعی اور سکیورٹی تعاون کے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔‘
دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان کے امریکی سازش کے الزامات سے متعلق سوال پر ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بار ان کی تردید کی۔
اس سوال پر کہ اب عمران خان امریکہ کو قصوروار نہیں ٹھہراتے، نیڈ پرائس نے کہا: ’جب سے یہ غلط الزامات سامنے آئے ہیں ہم نے اس بارے میں واضح طور پر بات کی ہے۔ ہم نے مسلسل کہا ہے کہ ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔‘